پاکستان میں شرح سود خطے میں سب سے زیادہ، حکومت صورتحال فوری ایڈریس کرے، پیاف

248

لاہور: پاکستان انڈسٹریل اینڈ ٹریڈرز ایسوسی ایشنز فرنٹ (پیاف) کے سیئنر وائس چیئرمین ناصر حمید خان نے کہا ہے کہ سٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں 2.5 فیصداضافہ سے معیشت پر منفی اثرات ہونگے ، غیر دانش مندانہ فیصلہ ہے،

مزید سست روی کا شکار ہو جائے گی جو پہلے ہی آئینی و سیاسی بحران ، روپے کی مسلسل گرتی ہوئی قدر اور کاروباری مندے کی وجہ سے جمود کا شکار ہے جبکہ نجی شعبہ قرضوں سے محروم ہو جائے گا کیونکہ تیرہ سے پندرہ فیصد سود ادا کرنے والا کوئی کاروبار منافع بخش نہیں رہ سکتا ۔

بزنس کمیونٹی پہلے ہی بڑھتی ہوئی کاروباری لاگت، افراط زر اور روپے کی قدر میں کمی سے پریشان ہے اور اب شرح سود میں اضافہ سے انکے مسائل میں مزید اضافہ ہو گا اور کاروباری اداروںکے ڈیفالٹ سے بینک اور قرضداروںمیں قانونی تنا زعات جنم لیں گے ۔اس فیصلے سے حکومت پر بھی دباﺅ بڑھ جائے گا اور قرضوں کی ادائیگی کیلئے زیادہ سرمایہ صرف کرنا پڑے گا

جس سے سماجی شعبہ سمیت تمام شعبہ جات متاثر ہونگے۔ اب شرح سود 9.75 سے بڑھ کر12.25 فیصد تک پہنچ گئی ہے جسے برداشت کرنا مشکل ہو گا اور پیداوار اور برآمدات کا بڑھانا مشکل ہو جائے گا کیونکہ پاکستان میں شرح سود خطے میں سب سے زیادہ ہو گئی ہے، ہمسایہ ملک بھارت میں شرح سود4 فیصد بنگلہ دیش میں 4.75سری لنکا میں 6.5فیصد اور بھوٹان میں 7.16 فیصد ہے جس سے مسابقتی مسائل جنم لیں گے اورصنعتی سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی ہو گی ۔

انہوں نے کہامرکزی بینک کا فیصلہ شرح نمو میں اضافہ کی تمام کوششوں کو ناکام بنا دے گاجبکہ سرمایہ کاری کے امکانات دم توڑ جائیں گے جس سے بے روزگاری کے خاتمہ، صنعتی فروغ اور بے روزگاری میں کمی کے منصوبے اثر انداز ہون گے ۔ سیئنر وائس چیئرمین پیاف ناصر حمید خان نے وائس چیئرمین پیاف جاوید اقبال صدیقی کے ہمراہ بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ

معاشی اشارےی کمزور ہونیکی وجہ سے ڈالر اور گولڈ کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں اور اب شرح سود میں مزیداڑھائی فیصد اضافہ سے مہنگائی کی نئی لہر آئیگی اورکاروبار جاری رکھنامزید مشکل ہو جائے گا۔حکومت اس صورتحال کو فوری طور پر ایڈریس کرے