بدمعاش ریاست کی شرمناک تاریخ

948

معلوم نہیں ان سطور کی اشاعت تک عمران خان اقتدار میں ہوں گے یا نہیں، لیکن عمران خان نے اسلام آباد کے جلسے میں اپنی حکومت کے خلاف عالمی سازش کے حوالے سے جو کچھ کہا وہ کئی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے۔ عمران خان نے جلسے میں ایک خط لہرایا اور بتایا کہ انہیں لکھ کر دھمکی دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کسی شخص کو شبہ ہے تو وہ اُسے مذکورہ بالا خط آف دی ریکارڈ دکھا سکتے ہیں۔ اگرچہ عمران خان نے اپنے خط میں کسی طاقت کا نام نہیں لیا لیکن عام خیال یہ ہے کہ ان کا اشارہ امریکا کی جانب ہے۔ اس لیے کہ پاکستان کو دھمکی دینے کی صلاحیت امریکا ہی کو حاصل ہے۔

امریکا کے ممتاز دانش ور نوم چومسکی امریکی بھی ہیں اور یہودی بھی، لیکن اس کے باوجود وہ امریکا کو ’’بدمعاش ریاست‘‘ کہتے ہیں۔ نوم چومسکی امریکا کو صرف بدمعاش ریاست کہہ کر نہیں رہ جاتے، وہ امریکا کی بدمعاشیوں کی تاریخ بھی بیان کرتے ہیں۔ نوم چومسکی امریکا کے حوالے سے جو کچھ کہتے ہیں اُس کا لبِ لباب قرآن کی اصطلاح میں یہ ہے کہ امریکا نے بحروبر میں فساد برپا کردیا ہے۔ وہ نہ صرف یہ کہ عالمی سیاست کو کنٹرول کررہا ہے بلکہ عالمی معیشت بھی اس کی مٹھی میں ہے۔ وہ جہاں چاہتا ہے اپنی مرضی کی حکومت لے آتا ہے۔ جہاں چاہتا ہے حکومت کے خلاف بغاوت کرا دیتا ہے۔ سوسن سونٹیگ بھی امریکا کی ممتاز دانش ور تھیں۔ انہوں نے برطانیہ کے ممتاز اخبار گارجین میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں لکھا کہ امریکا کی بنیاد نسل کُشی پر رکھی ہوئی ہے۔ سوسن سونٹیگ کا یہ مضمون شائع ہوا تو امریکا میں ہنگامہ برپا ہوگیا۔ امریکا کے کئی معروف سیاست دانوں نے سوسن سونٹیگ کو ’’غدار‘‘ قرار دیا اور کہا کہ ان پر غداری کا مقدمہ چلنا چاہیے۔ لیکن سوسن سونٹیگ نے جو بات کہی تھی وہ غلط نہ تھی۔ امریکا کی بنیاد واقعتاً نسل کُشی پر رکھی ہوئی ہے اور نسل کُشی بھی معمولی نوعیت کی نہیں۔ مغربی دنیا کے ممتاز دانش ور مائیکل مان نے اپنی مشہورِ زمانہ تصنیف ’’ڈارک سائیڈ آف دی ڈیموکریسی‘‘ میں لکھا ہے کہ سفید فاموں نے امریکا پر قبضے کے بعد وہاں 8 سے 10 کروڑ لوگوں کو قتل کیا۔ امریکا سفید فاموں کا ملک نہیں تھا بلکہ ریڈ انڈینز کا ملک تھا، مگر سفید فاموں نے امریکا پر قبضے کے بعد اس کے اوریجنل باشندوں کی نسل کُشی شروع کی اور چند دہائیوں میں آٹھ سے دس کروڑ انسانوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ مثل مشہور ہے ’افراد اور قوموں کا آغاز ہی ان کا انجام ہوتا ہے‘۔ سفید فاموں نے آٹھ سے دس کروڑ ریڈ انڈینز کے قتل عام کے بعد پوری دنیا کا رخ کیا اور انہوں نے بیسویں اور اکیسویں صدی میں دنیا کے اندر وہ تباہی مچائی جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ امریکا نے کوریا کی جنگ میں 30 لاکھ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا، ویت نام کی جنگ میں دس سال کے دوران دس سے پندرہ لاکھ افراد کو مار ڈالا۔ امریکا دنیا کا واحد ملک ہے جس نے جاپان کے خلاف ایک نہیں دو ایٹم بم استعمال کیے اور وہ بھی کس حال میں؟ امریکا کے ممتاز دانش ور ہاورڈزن نے اپنی تصنیف ’’پیپلز ہسٹری آف دی یونائیٹڈ اسٹیٹس آف امریکا‘‘ میں لکھا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے آخری ایام میں امریکا کی فوج نے جاپانی فوج کے وہ پیغامات پکڑ لیے تھے جن میں بتایا گیا تھا کہ جاپانی فوج امریکا کے خلاف لڑنے کے قابل نہیں رہی اور وہ ہتھیار ڈالنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔ مگر اس کے باوجود امریکا نے جاپان پر ایک نہیں دو ایٹمی حملے کر ڈالے۔ امریکا چاہتا تو ایٹمی حملوں سے باز رہ سکتا تھا، مگر پھر دنیا میں اُس کی وہ دہشت نہ ہوتی جو ایٹمی حملوں کے بعد قائم ہوئی۔ امریکا نے بیسویں اور اکیسویں صدی میں مسلمانوں کو بھی بڑے پیمانے پر قتل کیا۔ امریکا اور اُس کے اتحادیوں نے عراق پر اقتصادی پابندیاں عائد کیں اور ان اقتصادی پابندیوں سے عراق میں دوائوں اور غذا کی قلت ہوگئی جس سے پانچ لاکھ بچوں سمیت دس لاکھ افراد ہلاک ہوگئے۔ امریکا کی یہی سفاکی کم نہ تھی کہ امریکا کی سابق وزیر خارجہ یا سیکرٹری آف اسٹیٹ میڈلین البرائٹ نے مسلمانوں کے زخموں پر مزید نمک چھڑک دیا۔ ان سے ایک مغربی صحافی نے جب پوچھا کہ آپ پانچ لاکھ بچوں سمیت دس لاکھ افراد کی ہلاکت کے بارے میں کیا فرماتی ہیں؟ تو میڈلین البرائٹ نے کہا کہ یہ ہلاکتیں ہمارے لیے قابلِ قبول ہیں اور یہ بالکل ٹھیک ہیں۔ امریکا نے نائن الیون کے بعد افغانستان پر حملہ کیا اور 20 برسوں میں دو لاکھ سے زیادہ افغانوں کو مار ڈالا۔ امریکا نے عراق پر حملہ کیا اور امریکا کی جان ہوپکنز یونیورسٹی کے مطابق جنگ کے ابتدائی پانچ برسوں میں چھے لاکھ سے زیادہ عراقیوں کو قتل کردیا گیا۔

جہاں تک حکومتیں گرانے اور بدلنے کے معاملے کا تعلق ہے تو امریکا نے پوری دنیا کو مدتوں سے اپنی چراگاہ بنایا ہوا ہے۔ امریکا نے 1954ء میں ایران کے صدر مصدق کی حکومت کو گرادیا۔ مصدق کا جرم یہ نہیں تھا کہ انہوں نے امریکا کے ٹوئن ٹاورز گرادیے تھے، یا لندن پر حملہ کرادیا تھا۔ مصدق کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے اپنے ملک کی تیل کی صنعت کو قومیا لیا تھا، اور اس عمل سے امریکا اور برطانیہ کے کئی ملٹی نیشنل اداروں کے مفادات پر زک پڑتی تھی۔ چناں چہ امریکا نے لاکھوں ڈالر خرچ کرکے ایران میں مصدق کے خلاف مظاہرے کرائے۔ امریکا کے ممتاز اخبار واشنگٹن پوسٹ کی ایک خبر کے مطابق امریکا نے 1947ء سے 1989ء تک دنیا کی 72 حکومتوں کو گرانے کی سازشیں کیں، ان سازشوں میں سے 66 سازشیں خفیہ تھیں جبکہ 6 بار امریکا نے کھل کر حکومتیں گرانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق امریکا کی 66 خفیہ کوششوں میں سے 26 کامیاب اور 40 ناکام ہوئیں۔ امریکا نے مختلف ممالک کی حکومتوں کو گرانے کے لیے فوجی بغاوتوں کا سہارا لیا۔ ان میں 14 میں سے 9 بغاوتیں کامیاب ہوئیں۔ واشنگٹن پوسٹ نے لکھا ہے کہ امریکا نے 16 ممالک میں خفیہ سرمائے اور پروپیگنڈے کے ذریعے انتخابی عمل پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی، اور ان کوششوں میں سے 75 کوششیں نتیجہ خیز ثابت ہوئیں۔ واشنگٹن پوسٹ کی ایک اور خبر کے مطابق امریکا نے 1954ء ہی میں گوئٹے مالا میں جیکب آربینز کی منتخب حکومت کے خلاف بغاوت منظم کی۔ اس سلسلے میں امریکی سی آئی اے نے مرکزی کردار ادا کیا۔ سی آئی اے کی بغاوت کی یہ مہم اتنی مؤثر تھی کہ جیکب آربینز اقتدار پر گرفت قائم نہ رکھ سکے۔ 1981ء میں امریکی سی آئی اے نے نکاراگوا کی منتخب حکومت کو اقتدار سے محروم کیا۔ امریکا کے فارن پالیسی میگزین کے مطابق امریکی سی آئی اے نے ایک دھماکا خیز سگار کے ذریعے کیوبا کے انقلابی رہنما فیدل کاسترو کو ہلاک کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہی۔ 1960ء میں امریکی سی آئی اے نے کانگو کے پہلے منتخب وزیراعظم پیٹرس لوامبا کو برطرف کرا دیا۔ سی آئی اے نے اس سلسلے میں کانگو کے صدر جوزف کاسا بُو بُو کو استعمال کیا۔ 1963ء میں امریکا نے ویت نام میں نگوڈن ڈیم کی حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کرادی۔ امریکا نے 1964ء میں برازیل میں جاوا کولاٹ کی حکومت کو گرادیا۔ کولاٹ کی حکومت کا جرم یہ تھا کہ وہ چین کے کمیونسٹ انقلاب سے متاثر تھی اور اس کے مطابق برازیل کی ترقی چاہتی تھی۔

مسلم دنیا میں حکومتیں بنانے اور گرانے کا امریکی کھیل بہت پرانا ہے۔ شاہ فیصل کو اگرچہ اُن کے بھتیجے نے شہید کیا، مگر باخبر لوگوں کی عظیم اکثریت کا خیال ہے کہ شاہ فیصل کی شہادت کی پشت پر امریکی سی آئی اے موجود تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ شاہ فیصل نے تیل کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرکے پوری مغربی دنیا کو ہلا دیا تھا۔ شاہ فیصل کہنے کو بادشاہ تھے مگر ان میں دینی حمیت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ انہوں نے ایک دن امریکا کے سفیر کو دوپہر کے کھانے پر مدعو کیا۔ شاہ فیصل نے دوپہر کے کھانے کے لیے صحرا میں خیمہ نصب کرایا۔ انہوں نے امریکی سفیر کو لنچ میں چند کھجوریں اور قہوے کا ایک کپ پیش کیا اور کہا کہ ہمارے آباو اجداد کی زندگی اتنی قلیل غذا پر بسر ہوتی تھی اور ہم اپنے بزرگوں کے وارث ہیں۔ چناں چہ مغربی دنیا ہمیں اس بات سے نہ ڈرایا کرے کہ وہ ہمارے تیل پر قبضہ کرلے گی۔ اس سے پہلے کہ مغربی دنیا ہمارے تیل پر قبضہ کرے ہم اپنے تیل کے کنووں کو خود آگ لگادیں گے۔

آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ہمیں کھانے کے لیے جو کھجوریں اور پینے کے لیے جو قہوہ درکار ہے وہ ہم تیل کے بغیر بھی پیدا کرلیں گے۔ البتہ مغربی دنیا کو سوچنا چاہیے کہ جب تیل نہیں رہے گا تو اس کی ترقی کا کیا بنے گا۔ شاہ فیصل کی یہ فکر انقلابی تھی اور امریکا اسے کیسے ہضم کرسکتا تھا! یہ امر بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پاکستان میں اسلامی ممالک کے سربراہوں کی کانفرنس کی پشت پر بھی شاہ فیصل ہی موجود تھے۔ چناں چہ مغرب کے لیے شاہ فیصل کو راہ سے ہٹانا ناگزیر ہوگیا تھا۔ بھٹو صاحب کا جرم یہ تھا کہ وہ کہا کرتے تھے کہ ہم گھاس کھائیں گے مگر ایٹم بم بنائیں گے۔ بھٹو کا خیال تھا کہ اگر پاکستان کا ایٹم بم اور عربوں کا پیٹرو ڈالر مل جائیں تو مسلم دنیا ایک بڑی طاقت بن سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا کے وزیرخارجہ ہنری کسنجر نے بھٹو کو دھمکی دی تھی کہ ہم تمہیں ایک عبرت ناک مثال بنادیں گے۔ جنرل ضیا الحق افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جہاد کے وقت امریکا کے اتحادی تھے مگر بعدازاں وہ امریکا سے آزاد ہوکر سوچنے لگے۔ انہوں نے کشمیر میں جہادی عمل کو آگے بڑھایا۔ وہ افغانستان کے بارے میں بھی امریکا سے الگ رائے رکھتے تھے۔ چناں چہ امریکا اُن کی جان کے درپے ہوگیا۔ جنرل ضیا الحق نے اپنے طیارے کے حادثے سے پہلے ملک کے اندر اپنی نقل و حرکت محدود کی ہوئی تھی، مگر امریکا نے اسٹیبلشمنٹ میں نقب لگا کر جنرل ضیا الحق کے طیارے کو اڑا دیا اور اپنے سفیر کی قربانی دے دی۔

یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ امریکا نے مصر میں صدر مرسی کی حکومت کو برطرف کرانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ امریکا نے جنرل سیسی کے اقتدار پر قبضے کو مارشل لا بھی تسلیم نہ کیا، کیوں کہ پھر امریکا کو مصر پر پابندیاں عائد کرنی پڑجاتیں۔ ترکی کے صدر اردوان کے خلاف فوجی بغاوت میں بھی امریکا ملوث تھا۔ صدر اردوان نے کھل کر کہا تھا کہ امریکا اپنے یہاں مقیم فتح اللہ گولن کو ترکی کے حوالے کرے۔ امریکا کی یہ ہولناک تاریخ بتارہی ہے کہ امریکا واقعتاً ایک بدمعاش ریاست ہے اور وہ کہیں بھی کچھ بھی کرسکتا ہے۔