پاکستان میں مزدور کی کم از کم تنخواہ 50 ہزار روپے ہونی چاہیے

957

کراچی (رپورٹ: قاضی سراج) مزدورکی کم ازکم تنخواہ 50 ہزار روپے ہونی چاہیے‘وفاقی وصوبائی حکومتیں کم از کم تنخواہ کے بجائے لیونگ ویج کا نظام رائج کریں‘ مہنگائی نے مزدور طبقے کی کمر توڑ دی‘ مزدوروںکو پناہ گاہیں اور لنگر خانے نہیں، اپنا جائز حق چاہیے‘ سرمایہ دار متحد اور محنت کش طبقہ تقسیم ہے‘ بیشتر ملکی اداروں میںکارکنان کو قانون کے مطابق تنخواہ ادا نہیں کی جا رہی۔ ان خیالات کا اظہارنیشنل آرگنائزیشن برائے ورکنگ کمیونٹیز کے رہنما مرزا مقصود، متحدہ لیبر فیڈریشن خیبر پختونخوا کے صدر محمد اقبال اور جماعت اسلامی کورنگی کے رہنما محمد شعیب نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’مزدوروں کی لیونگ ویج کتنی ہونی چاہیے؟‘‘ مرزا مقصود نے کہا کہ لیونگ ویج سے مراد ایسی تنخواہ جو تمام ضروریات زندگی کو پورا کرتی ہے‘ ضروریات زندگی میں روٹی، کپڑا، مکان، صحت، تعلیم، بچوں کی پرورش اور دیگر ضروریات شامل ہیں‘ وفاقی و صوبائی حکومتیں کم از کم تنخواہ کے بجائے لیونگ ویج کے نظام کو رائج کریں‘ دنیا بھر میں کئی تنظیمیں یہ مطالبہ کر رہی ہیں کہ لیونگ یا فیئر ویج کا نظام نافذ کیا جائے‘ جب ہم برطانیہ میں تنخواہ کے نظام کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ہاں تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے 2 پیمانے ہیں‘ ایک کم از کم قومی تنخواہ اور دوسرا نیشنل لیونگ ویج ہے‘ نیشنل لیونگ ویج کا اطلاق 23 سال سے زاید عمر کے ملازمین پر ہوتا ہے‘ 2021-22ء میں ان کی فی گھنٹہ لیونگ ویج8.61پائونڈ ہے۔ جبکہ 18 سال سے کم عمر ملازمین اپرنٹس کہلاتے ہیں جن کی تنخواہ 4.30 پائونڈ فی گھنٹہ ہوتی ہے‘ 19 سال کی عمر سے زاید ملازمین کو اپرنٹس نہیں سمجھا جاتا اور وہ عمر کے لحاظ سے تنخواہ کا حقدار ہوتا ہے‘ برطانیہ میں کم از کم تنخواہ کو عمر کے لحاظ سے تقسیم کیا جاتے ہے‘ برطانیہ میں تنخواہ میں اضافہ ہر سال یکم اپریل کو کیا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان میں کم از کم تنخواہ 20 ہزار روپے ماہانہ ہے جو فی گھنٹہ تنخواہ 83 روپے بنتی ہے جبکہ ڈالر میں 0.41 فی گھنٹہ ہے‘ اس لحاظ سے موجودہ کم از کم تنخواہ کو تنخواہ کہنا ہی غلط ہے‘ یہ تو اپرنٹس کے وظیفے سے بھی کم ہے۔ دیگر کئی ممالک میں دستیاب 2019ء کے اعداد و شمار کے مطابق فی گھنٹہ امریکی ڈالر میں تنخواہ یہ ہے۔ آسٹریلیا (12.60)، فرانس (12.10)، جرمنی (11.80) ، نیدرلینڈ (11.00) ، کینیڈا (10.20)، امریکا ( 7.30 )، ترکی (6.70)، روس (2.40) اور بھارت میں (1.43 ) ڈالر ہے‘ اب آپ خود سمجھ سکتے ہیں دیگر ممالک اور ہماری تنخواہ میں کتنا فرق ہے کہ کم از کم تنخواہ اور لیونگ ویج میں نہ صرف فرق کو سمجھنا ہوگا بلکہ یہ بھی جاننا ہوگا کہ حکومت نے مزدوروں کی جو کم از کم تنخواہ مقرر کی ہے وہ ان کو مل بھی رہی ہے کہ نہیں ‘تنخواہ سے متعلق قانون پر سختی سے عملدرآمد کرایا جائے اور ہم اپنی معاشرتی اقدار،خاندانی نظام ،ضروریات اور بنیادی ضروریات کے مالی بوجھ کو مد نظر رکھتے ہوئے تنخواہ کا مطالبہ کریں‘ دنیا بھر میں لیونگ ویج کا مطالبہ ایک تحریک کی مانند ہے‘ شاید ہی کوئی ملک ہو جس میں لیونگ ویج کو مکمل طور پر تسلیم کرلیا گیا ہو‘ میں یہ بھی واضح کردوں کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں تعلیم سرکاری ہے‘ علاج کے لیے سوشل سیکورٹی کا نظام ہے‘ پانی، بجلی، گیس اور خوراک کے سامان کی فراہمی مناسب قیمت پر سرکار کی ذمہ داری ہے‘ ہماری وفاقی و صوبائی حکومتیں کئی بنیادی ضروریات کی فراہمی کی ذمہ داری سے بری الذمہ ہو چکی ہیں۔ مثلاً تعلیم، صحت، روزگار، خوراک، رہائش، صاف پانی، گیس، ٹرانسپورٹ سمیت تمام بنیادی ضروریات زندگی نجی شعبے کے حوالے ہیں اور ان پر کوئی حکومتی چیک بھی موجود نہیں‘ ان حالات میں اگر کم از کم تنخواہ کا بھی جائزہ لیں تو لاقانونیت نظر آتی ہے‘ کم از کم تنخواہ غیر ہنر مند کارکن کے لیے ہے لیکن اس کے برعکس بیشتر اداروں میں یا تو یہ تنخواہ ادا ہی نہیں کی جا رہی یا کئی کئی سال کا تجربہ رکھنے والے کارکنان کو بھی احسان عظیم کرتے ہوئے کم از کم تنخواہ ادا کی جا رہی ہے‘ پاکستان بننے کے بعد ایک ماہ کی کم از کم تنخواہ میں کتنا سونا آتا تھا اور آج ایک ماہ کی تنخواہ میں کتنا سونا آتے ہے تو اس سے لیونگ ویج کا تعین آسان ہو جائے گا۔ محمد اقبال نے کہا کہ کے پی کے میںکم از کم اجرت21 ہزار روپے ہے مگر آج کل 6 افراد پر مشتمل کنبے کا 50 ہزار روپے میں بھی گزارا ممکن نہیں‘ مزدوروں کی اکثریت کرایہ کے مکان میں رہتی ہے۔ 3 کمروں پر مشتمل مکان 10 ہزار روپے سے کم نہیں ملتا‘ بجلی، گیس کے بل کا سب کو پتا ہے‘ اللہ جانے دیہاڑی پر کام کرنے والوں کا گزر بسر کیسے ہوتا ہوگا جن کی کبھی دیہاڑی لگتی ہے‘کبھی نہیں لگتی‘ ظلم پر مبنی اس سماج میں ان لوگوں کی کوئی اوقات نہیں جن کو اللہ نے اپنے دوستوں سے تعبیر کیا ہے‘ یہاں اوقات ان لوگوں کی ہے جو اللہ کے دوستوں کا استحصال کرتے ہیں جو اللہ کے دوستوں کو حقیر سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس ظالمانہ نظام کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور ایسا صرف محنت کشوں کا اتحاد ہی کر سکتا ہے‘ افسوس اس بات پر ہے کہ استحصال کرنے والے تو ایک ہیں مگر استحصال کا شکار طبقہ تقسیم ہے۔محمد شعیب نے کہا کہ مزدور کی ماہانہ اوسطاً 19ہزار روپے ہے‘ گزشتہ 3 سال میں جس تیزی سے مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے‘ اس سے مزدور طبقہ کی کمر ٹوٹ گئی ہے‘اس آمدنی میں پورا مہینہ گزارنا مشکل نہیں، ناممکن ہے‘ گھر کا راشن، بچوں کی اسکول فیس، یوٹیلیٹی بلز، اگر گھر میں کوئی بیمار ہو جائے تو سرکاری اسپتالوں کے دھکے، دوائیوں اور بے جا ٹیسٹ رپورٹس کے اخراجات پورے کرنا ہی مزدور طبقے کے لیے ایک خواب سا بن گیا ہے۔مزدور کو پناہ گاہیں اور لنگر خانے نہیں بلکہ اس کا جائز حق چاہیے‘ مزدور کی تنخواہ ایک حاکم وقت کی تنخواہ کے برابر ہوگی تو تب ہی نظام درست سمت میں جائے گا۔