تحریک کامیاب ہونے کی صورت میں نیا وزیر اعظم منتخب ہوگا، وزیر اعلیٰ سندھ

413
تحریک کامیاب ہونے کی صورت میں نیا وزیر اعظم منتخب ہوگا، وزیر اعلیٰ سندھ

اسلام آباد: ویزر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ میں دو ٹوک انداز میں کہتا ہوں کہ عمران خا ن ہوں۔ یہ کوئی بھی ہو اس کو اگر کوئی خرید وفروخت کے ذریعہ نکالتا ہے تو وہ غلط ہے لیکن ایسا ہو نہیں رہا اور میں بڑی تصدیق سے یہ با ت کہہ سکتا ہوں ۔

آرٹےکل 63-A اراکین کو کسی کو بھی ووٹ دینے کی اجا زت دےتا ہے اگر وہ اپنی پا رٹی کی رائے کے علا وہ ووٹ کر تے ہیں اورمجھے نہیں پتا کہ وہ ووٹ کرنے کہاں جائیں گے، تو وہ کر سکتے ہےں،اس کے اپنے نتائج ہوں گے، نتا ئج مےں ےہ ہے کہ ان کا پا رٹی سربراہ پہلے شوکاز نوٹس دے گا پھر اسپےکر کو کہے گا اورا سپےکر الےکشن کمےشن مےںدیں گے اور الےکشن کمےشن فےصلہ کرنے مےں اےک مہےنہ لگا ئے گا ، تو ےہ پورایک طیرقے کار ہے اوراس سارے پروسیجرکا مطلب ہے کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ کچھ اور بھی آسکتا ہے ۔ ووٹ ڈالنے سے پہلے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ آپ کسی رکن کو روک سکیں۔ 

 مرادعلی شاہ کا کہنا تھا کہ آئین اراکین کو کسی کو بھی ووٹ دینے کی اجازت دیتا ہے تاہم اس کے کچھ نتائج ہیں اور وہ ان نتائج کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اگر عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو یہی قومی اسمبلی نیا وزیراعظم منتخب کرے گی اور موجودہ قومی اسمبلی کو بھی کچھ نہیں ہو گا اورسندھ اسمبلی توڑنے کا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد تو کامیاب ہو چکی ہے اب وہ تو اپنے دن پورے کررہے ہیں۔

اگر نیا وزیراعظم منتخب ہوتا ہے تو میرے خیال میں حکومت کو مدت پوری کرنی چاہیئے۔ ایم کیوایم نے فیصلہ خود کرنا ہے کہ انہوں نے اپوزیشن جماعتوں کی تحریک عدم اعتماد کی حمایت کرنی ہے یا نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم، (ق)لیگ اور بلوچستان عوامی پارٹی کی قیادت میں کھلے عام اس بات کا اظہارکیا ہے کہ وہ حکومت سے خوش نہیں، اشارے یہی ہیں یہ ساری جماعتیں تحریک عدم اعتماد کا ساتھ دیں گی تاہم یہ فیصلہ انہیں نے کرنا ہے۔

وزیراعظم کو اس کا سا منا کرنا چا ہئے تھا لیکن اس دن کے بعد وزیزاعظم اور ان کے وزراء اور پی ٹی آئی کے لو گ جو زبا ن استعمال کر رہے تھے اور10مارچ کو پا رلیمنٹ ہاﺅس میں ایک پالیسی کا جتھا گھستا ہے اور زود کو پ کرتا ہے اورکچھ ایم اے نیز کو گرفتار کر کے لے جا تا ہے ، اس کے بعد 11تاریخ کو پیپلز پارٹی کے کچھ ممبرز نے کہا کہ ہمیں سندھ ہاﺅس میں رہنے کے لئے کچھ جگہ چاہئے اس لئے کہ ہم اپنے آپ پارلیمنٹ لاجزمیں محفوظ نہیں سمجھ رہے، دیگر جماعتوں کے ایم این ایزنے بھی ہمیں کہا۔

ان کا کہنا تھاکہ سندھ ہاﺅس یاس کسی بھی صوبائی حکومت کا کوئی گیسٹ ہا ﺅس پارلیمنٹرین کے لئے کھلا ہوتا ہے،میں خود ایک بار پنجاب ہا ﺅس میں ٹھہرا ہوں جب میں رکن صوبائی اسمبلی تھا اور سندھ ہاﺅس میں جگہ نہیں تھی تو میں درخواست کرکے پنجاب ہاﺅس میں ٹھہرا۔اس طرح با قی جماعتوں اور باقی صوبوں کے لوگ سندھ ہاﺅس میں جاکر ٹھرتے ہیں،ا س طرح اورلوگوں نے بھی درخواست کی ، اس میں کوئی غیرقانونی با ت نہیں تھی اس درخواست پر وہ وہاں سندھ ہاﺅس میں رہنے آئے ۔

 وزےر اعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے غیر پارلیمانی زبان استعمال کرتے ہوئے انہیں پتا نہیں کہاں سے نوٹوں کی بوریاں نظرآگئیں اور لوگوں کو اشتعال دلائے، جوالفاظ انہوں نے قومی ٹیلی وژن پر استعمال کئے وہ کوئی نجی محفل میں بھی استعمال نہیں کرسکتا، انھو ں نے سندھ ہاﺅس کو بڑے القاب دیئے اورجو ایم ایزبیٹھے تھے ان کو عجیب وغریب الفاظ سے نوازا جو ہم نجی جگہ نہیں کہہ سکتے ، وہ ہوتی ہے اشتعال انگیزی۔

ان کا کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد میں ووٹ کون کس کو کررہا ہے اس سے سندھ ہاﺅس کی انتظامیہ کو ، وزیراعلیٰ سندھ کو یا سندھ حکومت کو کوئی غرض نہیں ہے اور میں کسی کو کیسے کہہ سکتا ہوں کہ آپ ادھر ووٹ کریں یا نہ کریں ،یا میں کسی سے کیسے پوچھ سکتا ہوں کہ اگر آپ کدھرووٹ کررہے ہیں، اگرآپ عمران خان کے خلا ف ووٹ کریں تو آئیں میں آپ کو جگہ دے تاہوں یا اگر آپ عمران خان کی حمایت میں ووٹ دیں تومعذرت کے ساتھ آپ کے لئے جگہ نہیں ہے ، میں کیسے یہ ان سے کہہ سکتا ہوں ، جتنے دن وہ سندھ ہاﺅس میں رہیںگے ان سے رینٹ لیا جائے گا ۔