ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا،

611

ہمارے معاشرتی نظام میں ضعیف العمر افراد کی اہمیت اور افادیت سے انکار کسی طور بھی ممکن نہیں۔ بزرگوں کا سایہ ماں،باپ کی شکل میں ہو تو اولاد کو تپتی جھلستی دھوپ میں بھی دعائوں کے یخ بستہ حصار میں لیے رکھتا ہے، اساتذہ کی صورت میں ہو تو علم کی جھلملاتی شمع سے زندگی کی تاریک راہوں کو روشن و منور کر دیتا ہے، اور اگر یہی گھنا سایہ گھرانوں اور خاندانوں کی سرپرستی کر رہا ہو تو پھر تو دینی اور دنیاوی کامیابیوں کا متواتر حصول مقدر بن جاتا ہے۔۔ غرضیکہ ہر دور میں بڑے،بوڑھوں کی موجودگی بالخصوص نئی نسل کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔
لیکن اگر کسی نام نہاد ماڈرن سوشل سسٹم میں بزرگوں کو اُنکے بنیادی حقوق ہی حاصل نہ ہوں، انہیں قدم قدم پر تکالیف، پریشانیوں، مصیبت اور اذیتوں کا سامنا ہو، اُنکی عزت، وقار اور مرتبے کو نظر انداز کیا جا رہا ہو تو یہ عمل نہ صرف عملی اور ا خلاقی پستی کا سبب بنتا ہے بلکہ اس کے مضر اثرات پورے معاشرتی نظام کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں جسکا خمیازہ نسل در نسل بھگتنا پڑتا ہے۔
اسکے بر عکس معاشرے میں بزرگوں کو اُنکا جائز مقام، عزت اور اہمیت دی جارہی ہو، اُ نکی خوشحالی اور کامیابی کے لیے کوششیں کی جارہی ہوں، عمر رسیدہ افراد کی زندگی کو بہتر بنانے کیلیے کام کیا جارہا ہو، تو پھر نہ صرف ایسے کام سراہے جاتے ہیں بلکہ ان کاموں کو انجام دینے والے افراد اور ادارے بھی عوام کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں۔ لیکن صد افسوس کہ ہمارے یہاں کچھ ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا جو پاکستان میں موجود کروڑوں، غریب، محتاج اور بے سہارا عمررسیدہ افراد کو ریلیف فراہم کرسکے۔
پاکستان میں پسماندگی کا شکار عمر رسیدہ لوگ بنیادی حقوق سے محروم ہیں، انہیں قدم قدم پر تکالیف، پریشانیوں، مصیبت اور اذیتوں کا سامنا ہے، اُنکی عزت، وقار اور مرتبے کو نظر انداز کیا جا رہا ہے، پسماندہ علاقوں میں بسنے والے بزرگ افراد معاشرتی ناانصافیوں کا سامنا اور زندگی کی جنگ لڑتے لڑتے تھک چکے ہیں، انہیں نہ تو معیاری غذا میسر ہے، نہ سر پر مضبوط اور مستحکم سائبان اور نہ ہی صحت کی معیاری سہولتیں دستیاب ہیں، عمررسیدہ ہونے کی وجہ سے زندگی سے جڑے بیشتر معاملات میں بحیثیت سینئر سٹیزن جو سہولیات، سبقت، تکریم و تعظیم کے بزرگ افراد مستحق ہیں، وہ انہیں حاصل ہی نہیں۔ ماں، باپ کو اولاد (بالخصوص شادی شدہ بیٹوں ) کے ہاتھوں گھر سے نکالے جانے جیسے واقعات میں شدت آتی جارہی ہے، اور پھر جنہیں پال پوس کر جوان کیا، اسقابل بنایا کہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکیں، یہ جاننے کی بھی کوشش نہیں کرتے کہ ماں،باپ کس حال میں ہیں، زندہ بھی ہیں کہ مر گئے۔
ایک بات جو مشاہدے میں آتی ہے وہ یہ کہ اگر بزرگوں سے تفصیلی بات چیت کی جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ ہر گز کسی پر بوجھ نہیں بننا چاہتے، بوڑھے ضرور ہیں لیکن اپنے آپ کو معذوراور محتاج کہلوانا نہیں چاہتے، وہ بوجھ بننا نہیں، کام کرنا چاہتے ہیں لیکن افسوس کہ سہل روزگار کے موا قع دستیاب نہیں، انہیں قطاروں میں لگنا پڑتا ہے، بسوں میں کھڑے ہو کر سفر کرنا پڑتا ہے، قدم قدم پر دھکے، لہجوں کی تلخی اور منفی رویوں کی برداشتگی کے، اب اُنکے نا تواں وجود متحمل نہیں ہو سکتے!! ان نامصائب حالات نے بے سہارا عمر رسیدہ افراد سے جینے کی چاہ چھین لی ہے، وہ نا امید ہو چکے ہیں، مایوسیوں نے ڈیرے جما لیے ہیں، سانس لینا دشوار لگتا ہے، شام کے بعد رات آئے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اب سویرا ہونا ناممکن ہے، تاریکیاں اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں،، اندھیرے چھٹتے نظر نہیں آتے،، معاشرتی ناانصافیاں ہمارے بزرگوں کے اعصاب اور نفسیات پر بری طرح اثر انداز ہو رہی ہیں،وہ حد درجے مجبور ہیں انہیں اپنے مسائل کے حل کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا، وہ ذہنی الجھنوں کا شکار رہتے ہیں، نفسیاتی امراض میں مبتلا ہیں، یہ لوگ نشے یا پھر موت کو گلے لگا کر تمام الجھنوں سے آزاد ہونا چاہتے ہیں۔
خطرناک وبائی ا مراض کی بات کی جائے تو ملک میں رونما ہونے والے کورونا وائرس سے سب سے زیادہ معمر افراد متاثر ہوئے ہیں، سینکڑوں قیمتی جانیں اس جان لیوا مرض کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں، نوجوانوں کے ساتھ ساتھ عمر رسیدہ افراد کے لیے بھی اس مرض سے بچنے کا واحد راستہ مکمل آگاہی کا حصول اور احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہونا ہے تاہم غربت زدہ علاقوں میں بسنے والے معمر لوگوں کو موذی امراض کے سلسلے میں فوری اور موئژ آگاہی کا فراہم کیا جانا ایک سوالیہ نشان بن چُکا ہے۔ایک سوال یہ بھی ذہن میں آتا ہے کہ ملک میں کورونا وائرس کی آمد کے بعد سے لے کر اب تک، کونسے ایسے مفید، موئثر اور ٹھوس ا قدامات عمل میں لائے گئے کہ جنکا براہ ِ راست فائدہ مفلوک الحال عمر رسیدہ افراد کو پہنچا ہو؟۔۔۔ بہرحال موجودہ صورتحال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ نہ صرف ملک کے پسماندہ علاقوں، گائوں دیہاتوں بلکہ شہروں میں بھی موجود عمر رسیدہ افراد کے لیے ایسی مقامی تنظیمیں اور گروپ تشکیل پا سکیں جو انہیں نہ صرف وبائی امراض بلکہ اپنے حقوق کے بارے میں مکمل آگاہی فراہم کر یں، انکی اعتماد سازی کی تعمیر میں معاون ثابت ہوں، باہمی مشاورت، روابط، ہم آہنگی کو فروغ دیں اور زندگی سے جڑے دیگر مسائل پر بھی معاونت فراہم کر سکیں۔ حکومتی سطح پر ایسے ٹھوس اقدامات عمل میں لا ئے جانے کی ضرورت ہے جو بحیثیتِ مجموعی معمر افراد کی زندگیوں میں خوشگوار تبدیلیاں لانے کا موجب بن سکیں، دوسری جانب نوجوان نسل کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ بزرگوں کا خیال رکھیں، اُنکے مرتبے، عزت اور احترام میں کمی نہ آنے دیں، ماں، باپ کی خدمت کی جائے، دعائیں لی جائیں، اُنکا دل نہ دُکھایا جائے۔