تعلیم جاری رکھنے کے لیے اسقاط

اللہ تعالیٰ نے تخلیقِ انسانی کا ایک فطری طریقہ مقرر کیا ہے۔ مرد اور عورت رشتۂ ازدواج میں بندھتے ہیں، ان کے درمیان جنسی تعلق قائم ہوتا ہے، اس کے نتیجے میں وہ اولاد کی نعمت سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔ اولاد دنیوی زندگی کی زینت ہے۔ اس سے خاندان کی رونق قائم رہتی ہے۔ مزید یہ کہ اس کے ذریعے نسل انسانی کا تسلسل جاری رہتا ہے۔ اس لیے عام حالات میں شریعت نے اس فطری طریقے کے کسی بھی مرحلے میں رکاوٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دی ہے۔ نکاح انبیاء اور خاص طور پر خاتم النبیینؐ کی سنت ہے۔ محرکات ہونے کے باوجود اس سے باز رہنا پسندیدہ نہیں، اسی طرح نکاح ہوجانے کے بعد اولاد کی پیدائش میں کوئی رکاوٹ ڈالنا بھی جائز نہیں۔ عہد جاہلیت میں لوگ اس کی بڑی بھونڈی تدبیر اختیار کرتے تھے کہ پیدائش کے بعد وہ ناپسندیدہ بچوں کو قتل کردیتے تھے۔ اسلام نے ایسا کرنے سے سختی سے روکا اور اس کی شدید مذمت کی۔ اب سائنسی ایجادات کے نتیجے میں پیدائش سے قبل ہی ناپسندیدہ بچوں کو مختلف تدابیر سے ہلاک کردیا جاتا ہے۔ یہ عمل فطرت سے بغاوت ہے، اس لیے شریعت کی نظر میں وہ بھی ناجائز ہے۔
دوسری طرف اسلامی شریعت میں احکام پر عمل آوری کے سلسلے میں ’عذر‘ کا اعتبار کیا گیا ہے۔ جو شخص جس درجے میں معذور ہے اسی درجے میں اس سے احکام ساقط ہوجاتے ہیں۔ کوئی مرد یا عورت کسی وجہ سے حقوقِ زوجیت ادا کرنے پر قادر نہ ہو تو وہ حکم نکاح کی مخاطب نہیں ہے۔ عورت کسی ایسے مرض میں مبتلا ہوکہ وہ حمل کو ولادت کے مرحلے تک پہنچانے کی متحمل نہ ہو یا اس سے اس کے مرض میں اضافے کا ظن غالب ہو تو استقرار حمل کے بعد بھی شریعت نے اسے اسقاط کروانے کی اجازت دی ہے۔ عورت ایڈز کا شکار ہو اور یہ یقینی ہو کہ حمل کو جاری رکھنے کی صورت میں بچہ بھی ایڈز زدہ پیدا ہوگا، ایسی صورت میں حمل کو ساقط کروایا جاسکتا ہے۔ تشخیصی آلات کے ذریعے معلوم ہوگیا ہو کہ رحم مادر میں پرورش پانے والا جنین ناقص الخلقت ہے، پیدایش کے بعد وہ طبعی ز ندگی نہیں گزار سکے گا، تو اس کا اسقاط کروانے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس طرح کی اور بھی دیگر صورتیں سوچی جاسکتی ہیں۔ خلاصہ یہ کہ کوئی بھی صورت، جس میں عورت یا جنین کی زندگی کو ضرر پہنچنے کا ظن غالب ہو، اس میں اسقاط کروایا جاسکتا ہے۔
سوال پیداہوتا ہے کہ کیا تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے کی خواہش اسی طرح کا کوئی عذر ہے جس کی بنا پر اسقاط جائز ہوجائے؟ اس سوال کا جواب دینے سے قبل چند نکات پر غور کرلینا چاہیے:
1۔اللہ تعالیٰ کی نوازش کے الگ الگ پیمانے ہیں۔ وہ کسی کو صرف لڑکے دیتا ہے، کسی کو صرف لڑکیاں، کسی کو دونوں اور کسی کو کسی مصلحت سے اولاد سے محروم رکھتا ہے۔ (الشوریٰ 49-50) کسی کو بہت سی اولادوں سے نوازتا ہے، کسی کو دو اور کسی کو صرف ایک لڑکی یا لڑکا عطا کرتا ہے۔ کیا خبر کہ اس نے کسی عورت کی تقدیر میں صرف ایک مرتبہ استقرارِ حمل لکھا ہو اور وہ اس کا اسقاط کروا کے خود کو ہمیشہ کے لیے اولاد کی نعمت سے محروم کرلے۔
2۔فطری نظام میں چھیڑ چھاڑ بسا اوقات ضرر رساں ہوتی ہے۔ حمل چاہے ابتدائی ایام کا ہو یا آخری ایام کا اور اسقاط چاہے دواؤں کے ذریعے کروایا جائے یا صفائی کے آلات (D & C) کے ذریعے، کسی نہ کسی درجے میں اس کا مکان موجود رہتا ہے کہ اس چھیڑ چھاڑ کے نتیجے میں رحم میں آئندہ استقرار حمل نہ ہوپائے۔ پھر کیا یہ عمل معقولیت پر مبنی ہوگا کہ کوئی عورت استقرار حمل کا اسقاط کروا کے خود کو اس خطرے میںڈال لے۔
3۔مناسب ہے کہ تعلیمی سلسلے کو وضع حمل تک کے لیے موقوف کردیا جائے۔ تعلیم جاری رکھنے کی خواہش چاہے محض علمی صلاحیت میں اضافے کے لیے ہو یا اس کے بعد ملازمت کرنے کا ارادہ ہو، دونوں صورتوں میں ایک سال کا وقفہ اتنا زیادہ نہیں ہے کہ اسے انگیز نہ کیا جاسکے۔ یونی ورسٹیوں میں ایسی سہولیات موجود ہوتی ہے کہ کوئی کورس کرتے ہوئے کسی عذر کی بنا پر درمیان میں وقفہ کیا جاسکتا ہے۔ اس سہولت سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
جو شخص بھی ان نکات کو اپنے پیش نظر رکھے گا اس کا جواب یہی ہوگا کہ تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے کی خواہش کو ئی شرعی عذر نہیں ہے۔ اس بنا پر اس کے لیے استقرار شدہ حمل کا اسقاط کروانا جائز نہیں ہے۔