یوکرین پر روسی حملہ :  مغربی میڈیا کو سخت تنقید کا سامنا

348
یوکرین پر روسی حملہ :  مغربی میڈیا کو سخت تنقید کا سامنا

کیف: روسی حملے کے بعد دنیا کی توجہ یوکرین پر مرکوز ہے، پوری دنیا کے لوگ اپنی ٹیلی ویڑن اسکرینوں پر چپکے ہوئے ہیں یا تازہ ترین خبریں جاننے کے لیے موبائل فونز کو بے چینی سے دیکھ رہے ہیں۔

تنازع کی لمحہ بہ لمحہ کوریج کے درمیان، کچھ لوگوں نے یوکرین پر روس کے حملے سے پیدا ہونے والے انسانی بحران کی میڈیا رپورٹنگ کے دوران نسل پرستانہ رویوں کی نشاندہی کی ہے۔نسل پرستانہ رپورٹنگ سب سے پہلے اس وقت دیکھی گئی جب سی بی ایس کے نمائندہ چارلی ڈی اگاٹا نے ’’مہذب‘‘ یوکرین کی صورت حال کا موازنہ مشرق وسطیٰ کے ممالک کی صورتحال سے کیا اور انہیں ’’غیر مہذب‘‘ ممالک قرار دیا۔

اپنی گفتگو کے دوران ان کا کہنا تھا کہ احترام کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ یوکرین وہ جگہ نہیں ہے جیسے عراق یا افغانستان ہے جہاں کئی دہائیوں سے تنازعات موجود ہیں، یہ نسبتاً مہذب، نسبتاً یورپی ملک ہے جہاں آپ اس کی توقع نہیں کریں گے یا امید نہیں کریں گے کہ جنگ ہونے والی ہے۔

چارلی ڈی اگاتا کے ریمارکس کے حوالے سے سوشل میڈیا پر غم و غصے کے اظہار کے بعد ایلن میکلوڈ نامی ایک ٹویٹر صارف نے اس طرح کے مزید واقعات کی ایک فہرست مرتب کی جس میں صحافی یوکرین کے شہریوں کی حالت زار پر رپورٹنگ کرتے ہوئے نسل پرستی کا شکار ہوئے۔اسی طرح کے ایک اور واقع میں الجزیرہ کے اینکر پیٹر ڈوبی نے کہا تھا کہ جنگ کے باعث فرار ہونے والے یوکرین کے لوگ اپنے رہن سہن کے انداز سے خوشحال متوسط طبقے کے لوگ ہیں، انہوں نے کہا کہ وہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے علاقوں سے بھاگنے کی کوشش کرنے والے مہاجرین سے مختلف ہیں۔