امریکی صدر: سعودی فرمانروا کا ٹیلی فونک رابطہ 

212
us-president

واشنگٹن: امریکی صدر جوبائیڈن اور سعودی فرمانروا سلمان نے ٹیلی فونک گفتگو میں ایران اور یمن کے حالات سمیت تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور توانائی کی فراہمی پر تبادلہ خیال کیا۔ وائٹ ہاﺅس سے جاری بیان میں کہا گیا کہ دونوں سربراہان نے عالمی سطح پر توانائی کی فراہمی یقینی بنانے کا عزم کیا۔

سعودی خبر رساں ادارے ایس پی اے نے کہا کہ اوپیک آئل پروڈیکشن گروپ میں سب سے زیادہ خام تیل برآمد کرنے والے ملک کے سربراہ شاہ سلمان نے پیٹرولیم مارکیٹوں میں توازن اور استحکام برقرار رکھنے کے حوالے سے بات کی۔انہوں نے روس سمیت او پیک پلس گروپ کے تمام اتحادیوں کے درمیان تیل سپلائی کے حوالے معاہدہ کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ٹیلی فونک گفتگو سے باخبر ذرائع کا کہنا تھا کہ عالمی توانائی کی مارکیٹ میں سعودی عرب سپلائی یقینی بنانے کے لیے سعودی عرب نے تاریخی کردار ادا کیا ہے تاکہ مستحکم اور لچکدار معیشتوں کے فروغ میں تعاون کیا جاسکے۔

شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ذرائع نے بتایا کہ امریکی صدر نے اس پر غور کیا یہ جغرافیائی سیاست اور عالمی سطح پر بحالی کے لیے یہ عمل اب خاصہ اہم ہے۔یوکرین میں جاری کشیدگی کی ایک وجہ تیل بھی ہے، روس کی جانب سے یوکرین کی سرحدودں پر مزید ایک لاکھ فوجی تعینات کردیے گئے ہیں۔امریکی سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن کا کہنا تھا کہ رواں ہفتے انتظامیہ نے اتحادیوں اور شراکتداروں سے رابطہ کیا جس میں تبادلہ خیال کیا گیا کہ اس موقع پر جب روس نے راستے بند کردیے ہیں اور یوکرین میں گیس کی فراہمی متاثر ہورہی ہے، توانائی کی ترسیل کس طرح کی جائے۔

بیان میں کہا گیا کہ کال پر بائیڈن نے یمن کے حوثی گروپ کے حملوں کے خلاف اپنے دفاع میں سعودی عرب کی حمایت کے لیے امریکا کے عزم کو دہرایا۔وائٹ ہاﺅس نے کہا کہ جو بائیڈن نے شاہ سلمان کو ایران کے جوہری پروگرام پر پابندیاں برقرار رکھنے کے لیے بین الاقوامی مذاکرات کے بارے میں بھی آگاہ کیا۔یمن کے تنازع کو بڑی حد تک سعودی عرب اور ایران کے درمیان خفیہ جنگ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔2014 کے اختتام میں دارالحکومت صنعا سے حکومت کا تختہ الٹنے والے حوثیوں کا کہنا ہے کہ وہ ایک کرپٹ نظام اور غیر ملکی جارحیت کے خلاف لڑ رہے ہیں۔

ایس پی اے نے کہا کہ سعودی فرمانروا نے جوبائیڈن کو بتایا کہ سعودی عرب یمن میں سیاسی حل چاہتا ہے۔شاہ سلمان اور جوبائیڈن کے درمیان آخری کال تقریبا ایک سال قبل امریکی جائزے کے اجرا کے وقت کی گئی تھی جس میں سعودی بادشاہ شاہ سلمان نے 2018 میں قتل شدہ صحافی جمال خاشقجی کو پکڑنے یا قتل کرنے کے لیے ایک آپریشن کی منظوری دی تھی۔