کیا ہم صرف اظہار یک جہتی کرتے رہیں گے؟

222

پانچ فروری ہر سال آتی ہے اور ہم ہر سال اِس تاریخ کو اہل کشمیر کے ساتھ اظہار یکجہتی کا دن مناتے ہیں۔ اللہ غریق رحمت کرے قاضی حسین احمد کو انہوں نے جب کشمیریوں کے ساتھ یہ دن منانے کا اعلان کیا تھا تو مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فوجوں کے خلاف معرکہ جہاد برپا تھا۔ کشمیری مجاہدین جام شہادت دے رہے تھے۔ دشمن پر خوف طاری تھا اور بھارتی پریس اپنی حکومت کو مشورہ دے رہا تھا کہ اس کے لیے آبرومندانہ راستہ یہی ہے کہ وہ باعزت طریقے سے پسپائی اختیار کرے اور کشمیریوں کے تسلیم شدہ حق خودارادیت کے تحت انہیں مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا اختیار دے کر عالمی برادری میں اپنا وقار بلند کرے۔ اِدھر قاضی صاحبؒ بھی بھارت پر دبائو بڑھانا چاہتے تھے، وہ زبانی اظہار یکجہتی کے قائل نہ تھے، ان کی دلی خواہش اور کوشش تھی کہ پاکستانی اپنے کشمیری بھائیوں کے دست و بازو بنیں، میدان کارزار میں حصہ لیں اور کشمیر میں مجاہدین کی کامیابی کو یقینی بنائیں۔ پاکستانی حکومتوں نے اس دن کو سرکاری طور پر منانے کا اعلان کیا تو ان پر مصلحت پسندی غالب آتی گئی۔ اربابِ اختیار زبانی تو اہل کشمیر کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے رہے لیکن ان کا کاسہ عمل سے خالی رہا۔ یہاں تک کہ 2001ء میں نائن الیون برپا ہوگیا یعنی 11 ستمبر کو نیویارک میں تجارت اور کاروبار کے عالمی مرکز ٹوئن ٹاورز کو دھماکے سے اڑا دیا گیا اور عمارت میں موجود سب لوگ جل کر راکھ ہوگئے۔ امریکا نے اس کا الزام کسی ثبوت کے بغیر اسامہ بن لادن اور ان کی تنظیم القاعدہ پر لگا کر افغانستان پر حملہ کردیا کہ یہ لوگ اس وقت افغانستان میں موجود تھے اور سابق سوویت یونین کی پسپائی کے بعد اس مصیبت زدہ ملک کی تعمیر نو میں حصہ لے رہے تھے۔ افغانستان پر طالبان کی حکومت تھی۔ طالبان لیڈروں نے امریکا کے اس مطالبے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا کہ وہ کسی ثبوت کے بغیر اسامہ بن لادن کو اسی کے حوالے کردیں ورنہ تباہی و بربادی کے لیے تیار رہیں۔ پاکستان پر اس وقت جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی اس نے امریکا کی ایک وارننگ کے جواب میں اس کے آگے گھٹنے ٹیک دیے اور قوم سے خطاب کرتے ہوئے دلیل یہ دی کہ اس طرح امریکا مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی حمایت کرے گا اور کشمیری عوام بھارت کی غلامی سے نجات حاصل کرسکیں گے۔ لیکن ریکارڈ شاہد ہے کہ مسئلہ کشمیر کو سب سے زیادہ نقصان جنرل پرویز مشرف کے دور میں پہنچا اور امریکا نے کشمیری عوام کی منصفانہ جدوجہد کی حمایت کرنے کے بجائے اسے دہشت گردی قرار دے دیا۔ کنٹرول لائن کے راستے کشمیری مجاہدین کی نقل و حرکت پر پابندی لگوادی۔ جنرل پرویز مشرف نے امریکی دبائو میں آکر اندرون ملک کشمیر کی آزادی کے لیے جہاد فنڈ جمع کرنے کو بھی خلاف قانون قرار دے دیا۔ پھر اس سے بھی بڑھ کر وہ کشمیر کو تقسیم کرنے اور مسئلہ کشمیر کا ’’آئوٹ آف باکس‘‘ حل تلاش کرنے کی باتیں بھی کرنے لگا۔ جس پر سید علی گیلانی مرحوم نے ایک ملاقات میں اسے غدارِ کشمیر قرار دیتے ہوئے اس سے ہاتھ ملانے سے انکار کردیا تھا۔ ’’یوم یکجہتی کشمیر‘‘ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی منایا جاتا رہا لیکن مشرف حکومت کشمیریوں کے ساتھ پاکستانیوں کی یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے میں مصروف رہی۔
جنرل پرویز مشرف کے بعد ملک میں انتخابات کے ذریعے سول حکومت بحالی ہوئی اور پیپلز پارٹی برسراقتدار آئی تو اس کا رویہ بھی مشرف حکومت سے مختلف نہ تھا۔ صدر آصف علی زرداری نے مسئلہ کشمیر کو بیس سال کے لیے منجمد کرنے اور بھارت کے ساتھ اقتصادی تعلقات بڑھانے پر زور دیا۔ ان کے دور میں بھارت نواز کشمیری لیڈروں محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کی پزیرائی کی گئی اور کشمیریوں کی منصفانہ جدوجہد کو سبوتاژ کیا گیا۔ ’’یوم یکجہتی کشمیر‘‘ پیپلز پارٹی کے دور میں بھی بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا رہا لیکن عملاً اس یکجہتی کے خلاف صف بندی ہوتی رہی۔ پیپلز پارٹی کے بعد مسلم لیگ (ن) برسراقتدار آئی اور میاں نواز شریف وزیراعظم بنے تو اَور چُھور ہی نرالے تھے۔ ان پر بھارت سے دوستی کا بھوت سوار تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ انتخابات میں عوام نے انہیں بھارت سے دوستی کا مینڈیٹ دیا ہے۔ ان کا یہ دعویٰ انتہائی گمراہ کن اور جھوٹ پرمبنی تھا لیکن وہ اپنے اس دعوے پر اڑے رہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں بھی وہ پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر دہلی جا پہنچے اور پاکستانی ہائی کمیشن میں ملاقات کے منتظر کشمیری لیڈروں سے ملنے سے کنی کترا گئے کہ اس طرح بھارتی وزیراعظم کے چہرے پر شکن آسکتی تھی۔ انہوں نے بھارتی وزیراعظم سے ذاتی دوستی گانٹھنے کی کوشش کی۔ اسے اپنی نواسی کی شادی کے موقع پر جاتی امرا بلایا اور تحائف وصول کیے۔ میاں نواز شریف کے دور میں مسئلہ کشمیر بالکل پس منظر میں چلا گیا لیکن کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا دن ان کے دور میں بھی منایا جاتا رہا۔
مسلم لیگ (ن) کے بعد تحریک انصاف کی باری آئی اور عمران خان وزیراعظم بنے تو اہل کشمیر نے ان کا والہانہ خیر مقدم کیا، انہیں قوی اُمید تھی کہ عمران خان کشمیر کے معاملے میں سابق حکمرانوں سے بہتر ثابت ہوں گے اور ان کے دور میں مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کی اُمید کی جاسکے گی۔ ابتدا میں ان کی کارکردگی بہت اچھی رہی۔ وہ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے خطاب کے لیے نیویارک گئے تو انہوں نے عالمی قائدین کے سامنے کشمیر کا مقدمہ نہایت جرأت و بے باکی سے پیش کیا جسے بڑے پیمانے پر سراہا گیا، اہل کشمیر کے چہرے کھل اُٹھے۔ سید علی گیلانی نے عمران خان کو خصوصی مبارکباد دی اور اس توقع کا اظہار کیا کہ وہ کشمیری عوام کی امیدوں پر پورا اتریں گے لیکن۔ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
عمران نے بہت جلد ان کی اُمیدوں پر پانی پھیر دیا۔ انہوں نے اپنے طور پر یہ فرض کرلیا کہ ایک تقریر ہی کافی ہے۔ مزید کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے سب سے پہلے پاکستانیوں سے کہا کہ وہ اپنے کشمیری بھائیوں کی مدد کے لیے کنٹرول لائن پار نہ کریں، یہ ان کے ساتھ بڑا ظلم ہوگا، اس طرح انہوں نے بھارت کے خلاف مزاحمت کا آپشن ترک کرنے کا کھلم کھلا اعلان کردیا جس کا بہت منفی اثر پڑا اور اہل کشمیر کے خلاف بھارت کی جارحیت میں کئی گنا اضافہ ہوگیا۔ عمران خان نے بھارت کے انتہائی متعصب اور کینہ پر وزیراعظم نریندر مودی سے مسئلہ کشمیر کے حل کی امیدیں وابستہ کرلیں اور مودی کے دوبارہ منتخب ہونے پر نیک تمنائوں کا اظہار کیا۔ ان کی ’’یہ نیک تمنائیں‘‘ اس طرح پوری ہوئیں کہ مودی نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے اسے بھارت کے اندر ضم کرلیا اور کشمیریوں کے احتجاج کو دبانے کے لیے ان کا پوری دنیا سے رابطہ منقطع کرکے ان پر لاک ڈائون مسلط کردیا۔ کشمیریوں بالخصوص سید علی گیلانی نے پورے عالم اسلام اور خاص طور پر پاکستان سے اپیل کی کہ وہ آگے آئیں اور انہیں تباہی سے بچانے کے لیے عملی اقدامات کریں۔ عالم اسلام کی بے حمیتی اور بے حسی تو واضح تھی، کشمیریوں کی تمام تر توقعات تو پاکستان سے وابستہ تھیں لیکن عمران خان کی حکومت سوائے بیان بازی کے کچھ نہ کرسکی۔ وہ بھارت کے خلاف جارحانہ سفارت کاری کی پالیسی بھی نہ اپنا سکی۔ نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ کشمیریوں کی شب غم طول کھینچتی گئی اور بھارت اپنے جارحانہ اقدامات کو مزید آگے بڑھانے میں مصروف ہوگیا۔
وہ اس وقت کشمیری مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے منصوبے پر تیزی سے کام کررہا ہے اور ہم ہیں کہ محض یوم اظہار یکجہتی منانے میں مصروف ہیں۔
دیکھا جائے تو جنرل پرویز مشرف کے بعد کشمیریوں کو سب سے زیادہ مصائب کا سامنا عمران خان کے دور میں کرنا پڑا ہے۔ بھارت نے ان کی غیر مزاحمتی پالیسی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو اپنے اندر ضم کرلیا ہے اور ہم اس پر کوئی موثر احتجاج بھی کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم صرف اظہار یکجہتی کرتے رہیں گے اور بھارت کشمیریوں کو حرفِ غلط کی طرح مٹا دے گا؟