ـ5 فروری، یوم ِیکجہتیٔ کشمیر

320

رہنما جماعت اسلامی پاکستان
خطۂ کشمیر، ارض فلسطین کی طرح دھرتی کا مظلوم ترین گوشہ ہے۔ پون صدی سے زائد عرصہ کشمیری مظلومین نے بھارتی فوج اور مسلح فورسز کی سنگینوں کے سائے میں گزارا ہے ۔اگست 2019سے درندہ صفت نریندر مودی نے دستور ہند کی دفعہ 370اور 35اے کو ختم کرکے کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کردیا ۔اس دن سے آج تک سترہ ماہ بیت چکے ہیں کہ کشمیر میں بدترین کرفیو ہے ۔ذرئع ابلاغ پر پابندی ہے ۔کشمیری پوری دنیا سے ابلاغی طور پر کٹ چکے ہیں ۔بھارتی فوج کم و بیش دس لاکھ کارندوں کے ساتھ اب ہندوانتہا پسند اور دنیا کی بدترین دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس کے ہزاروں مسلح غنڈے بھی کشمیر میں مسلم کشی میں شریک ہیں ۔مظلوم کشمیریوں کا قتل عام سے قبل مثلہ کیا جاتا ہے ۔اس بدترین ظلم پر پوری دنیا خاموش ہے حتی کہ حکومت پاکستان بھی عملاً خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہی ہے ۔انگریزی استعمار کے خاتمے سے ہی اس سرزمین پر بھارت کی درندہ صفت فوجیں اتنی بڑی تعداد میں نہتے کشمیریوں کی نسل کشی پر مامور ہیں کہ اس کی کوئی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ چھوٹی سی آبادی کو لاکھوں درندوں نے گھیر رکھا ہے۔ ان کی آبادیاں ویران، کھیت کھلیان اور باغات تباہ حال، عفت مآب بیٹیوں کی عصمتیں پامال اورپوری وادی جنت نظیر آج مقتل کی تصویر بنی ہوئی ہے۔
کشمیری حریت پسند روزِ اول سے بھارتی تسلط کے خلاف سرپا احتجاج رہے ہیں۔ پہلے بھارتی فوجیں یک طرفہ خون کی ہولی کھیلتی تھیں۔ ربع صدی قبل کشمیریوں نے بھی ہتھیار اٹھا لیے۔ اس کے نتیجے میں بھارتی درندوں کی لاشیں انڈیا کے مختلف شہروں میں جانے لگیں تو بھارتی بنیے کو احساس ہوا کہ کشمیر کو غلام رکھنا اب ان کے بس میں نہیں۔ کشمیری حریت پسند مختلف تنظیموں کے جھنڈے تلے مصروفِ جہاد تھے۔ پھر انھوں نے تحریک حریت کشمیر کو متحدہ پلیٹ فارم کی شکل دی اور سید علی گیلانی کی صورت میں ایک ایسی قیادت خطے کو نصیب ہوئی جو ہر لحاظ سے مثالی ہے۔ جسمانی لحاظ سے بظاہر کمزور، عمر رسیدہ، مختلف امراض سے نڈھال، علی گیلانی عقابی نگاہ اور چیتے کا جگر رکھتے ہیں۔ وہ واقعتا حیدرکرار ؓ کی تلوار ، خالدؓ کی للکار اور طارقؒ کی یلغار کا نمونہ ہیں۔ تحریک حریت کی کاوشوں سے مسئلہ کشمیر پھر زندہ ہوا۔ پاکستان اور آزاد کشمیر جہاد کشمیر کا بیس کیمپ ہیں۔ پاکستان اس مسئلے میں مداخلت کار نہیں بلکہ عالمی اداروں کے فیصلوں نے اسے باقاعدہ فریق کا درجہ دیا ہے۔ پاکستانی حکمران معلوم نہیں کیوں بزدلی کی چادر اوڑھے اس مسئلے سے دور بھاگتے ہیں۔
5فروری یوم یکجہتی کشمیر کی عوامی اورسرکاری حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ اس کا آغاز 1990ء میں ہوا۔ اس وقت نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب اور بے نظیر بھٹو مرحومہ وزیراعظم پاکستان تھیں۔ جماعت اسلامی کے اس وقت کے امیر جناب قاضی حسین احمد ؒ صاحب نے جماعت اسلامی کی ایک مشاورتی نشست میں یکجہتی کشمیر کے لیے دن منانے کا تصور پیش کیاجسے جملہ شرکاء کی طرف سے سراہا گیا۔ مشاورت میں طے پایا کہ ملک کے تمام عناصر و مسالک، حکومتی اور غیر حکومتی ادارے غرض پوری قوم اور تما م افراد یک زبان ہوکر مسئلہ کشمیر پر آواز اٹھائیں۔1990سے5 فروری تاریخی حیثیت اختیار کر گیا ہے اور اس روز پوری دنیا یہ منظر دیکھتی ہے کہ پاکستانی قوم بڑے شہروں سے لے کر چھوٹی چھوٹی بستیوں تک اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہی ہوتی ہے۔ یہ یوم یکجہتی قاضی حسین احمد رحمۃ اللہ علیہ کا ایک صدقہ جاریہ ہے۔ اللہ ان کو اس کا بہترین اجر عطا فرمائے۔ اس یوم کے تعین کے لیے جن لوگوں نے سوچ بچار کی اور جنھوں نے اس کے لیے دستِ تعاون بڑھایا ان سب کا یہ عمل باعث اجر ہے۔ جو جتنے اخلاص کے ساتھ مظلوم کشمیری بھائیوں کے لیے کام کرے گا، اتنا ہی اللہ کے ہاں اجر کا مستحق ہوگا۔آج پوری دنیا کا منظر نامہ تبدیل ہو رہا ہے ۔عالمِ اسلام میں ہر جانب بیداری کی لہریں موجزن ہیں۔ ہمیں جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت سے سرشار مجاہدینِ کشمیرو فلسطین اور افغانی و عراقی حریت پسندوں کا ساتھ دینا چاہیے ۔غلامی کی زنجیریں ان شاء اللہ ٹوٹ گریں گی اور جبر کا دور ختم ہو جائے گا ۔یہ دن تجدیدِ عہداور عزمِ نو کی نوید ہے۔ آئو اپنے اللہ سے عہد باندھیں کہ ہم کشمیر کی آزادی تک جدوجہد جاری رکھیں گے ۔اللہ تعالیٰ جہاد کرنے والوں کا ساتھی ہے اور ہم قائد المجاہدین ﷺکے امتی ہیں۔ تحریک آزادی کشمیر زندہ باد، یوم یکجہتی کشمیر پائندہ باد، بھارتی درندگی مردہ باد۔ لعنت برامریکہ ،بھارت ،اسرائیل گٹھ جوڑ!لعنت بر تثلیث خیبثہ !