حکومتی صفوں میں قادیانیوں کیلیے نرمی ٹھیک نہیں ، مقررین

190

 

کوئٹہ(نمائندہ جسارت)صدرملی یکجہتی کونسل بلوچستان مولاناعبدالحق ہاشمی اتحادبین المسلمین کا اہم پلیٹ فارم ہے اتحاد امت کیلیے کونسل کی گران قدر خدمات ہے بہت جلد کونسل کی صوبہ بھر میں تنظیم سازی کی جائیگی پہلے مرحلے میں تنظیم سازی کیلیے مارچ میں ڈھاڈر، نصیرآباد ، جعفرآباد،سبی ،جھل مگسی ،صحبت پور،ڈیرہ بگٹی کے اضلاع کا سہ روزہ دورہ کیاجائے گا ۔تنظیم سازی دورے میں کونسل میں شامل ممبرجماعتوں کے قائدین بھی شریک ہوں گے ۔ان خیالات کا اظہارانہوں نے ملی یکجہتی کونسل کے انتخابی تنظیم سازی کمیٹی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اجلاس میں کمیٹی کے سربراہ علامہ مقصودعلی ڈومکی ،سید حبیب اللہ شاہ چشتی ،محمد ادریس مغل ،مولانا سید رضااخلاقی ،عبدالولی خان شاکر ودیگر ممبرزشریک رہے ۔اجلاس میں حکومت سے مطالبہ کیاگیا ہے کہ گوادر میں حقوق کے حصول کیلیے ایک ماہ سے زیادہ حق دو تحریک دھرنے کے شرکا سے ہونے والے معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے مطالبات فوری تسلیم کیے جائیں ۔ملی یکجہتی کونسل اتحاد یکجہتی کیلیے ہرمکتب فکر کے لوگوں کی بلاتفریق رنگ نسل وزبان دینی پلیٹ فارم ہے۔ہم ظلم وجبر فرقہ واریت لسانیت ناانصافی کے خلاف اوریکجہتی کیلیے کوشاں ہیں ۔ حکمران اسلام سے انحراف بند کرکے ملک میں اسلامی قوانین نافذکریں اسلامی تعلیمات کے خلاف سازشیں کامیاب نہیںہوگی ، قرآن وسنت سے متصادم، پاکستان کی اقتصادی غلامی کی ظالمانہ قانون سازی ختم کی جائے۔سودی معیشت،اسٹیٹ بینک ومعیشت کوآئی ایم ایف کے حوالے کرنا ملک دشمنی ہے ۔حکومتی صفوں میں قادیانیوں کیلیے نرمی ٹھیک نہیں بدقسمتی سے اسلامی ریاست کے نام پر سیاست کرنے والوں میں قادیانیوں کے آلہ کار موجود ہے جو لمحہ فکریہ ہے ۔ پاکستان میں خوشحالی ترقی اورامن ویکجہتی حقیقی اسلامی نظام کے قیام سے ہی آئے گی ۔ اسلام کی حکمرانی ہی پاکستان کو مثالی اسلامی خوشحال فلاحی ریاست بنا سکتی ہے۔ ملک سے سودی معیشت ، غیر اسلامی قوانین کا خاتمہ وقت کی اہم ضرورت ہے ۔بدعنوانی ،فرقہ واریت ،لسانیت ،غیراسلامی قوانین ،کفار کی مداخلت مسائل کی جڑہیں حقیقی اسلامی حکومت میں ہی فلاح وکامرانی اورترقی ہے ۔ اسلامی جمہوری پاکستان میں حکومتی صفوں سے قادیانیوں کیلیے نرم رویہ مناسب نہیں ۔ آئین وقانون کی بالادستی ، سماجی اقتصادی اور عدالتی انصاف کا نفاذ وقت کی اہم ضرورت اورجدوجہد کی منزل ہے۔ سندھ میں بلدیاتی ایکٹ میں پی پی پی حکومت نے شہری حقوق ، اختیارات چھیننے کے لیے ترامیم کے ذریعے قانون کو کالا بنا دیا ہے۔بلوچستان کے ہر علاقے کے مظلوموں کو حکمران جائز حقوق دینے ہوںگے۔ آمرانہ اورغیر جمہوری رویہ خود اِن کے لیے مہنگا سودا ہو گا۔ دینی جماعتوں، مساجد ومدارس کے درمیان تقسیم ایک حقیقت ہے لیکن سب کے دینی مشترکات ، قرآن وسنت کی بنیاد ایک ہے علمائے کرام فروعی اختلافات ختم کرنے میں کردار اداکریں۔