کرپشن اور شفافیت

536

مسٹر کلین تو شفافیت کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئے تھے۔ وہ کرپشن کی ڈسی ہوئی قوم کو کرپشن سے پاک کرنا چاہتے تھے۔ جن لوگوں نے اپنے اقتدار میں قوم کو لوٹا تھا وہ ان سے لوٹا ہوا مال قوم کو واپس دلانا چاہتے تھے۔ وہ ملک میں بے لاگ احتساب کے حامی تھے۔ انہوں نے اقتدار میں آنے کے لیے 22 برس تک تیاری کی تھی۔ انہوں نے معیشت سے لے کر تعلیم، صنعت، زراعت اور خارجہ امور تک کے ماہرین کی ایک ایسی ٹیم تیار کی تھی کہ امور مملکت کو ہاتھ میں لیتے ہی وہ ملک کی قسمت بدل سکتے تھے۔ وہ اس مفلوک الحال اور پسماندہ قوم کو بامِ عروج پر پہنچا سکتے تھے۔ انہوں نے یورپ اور امریکا میں رائج نظام حکومت کا نہایت قریب سے مشاہدہ کیا تھا، وہ ماضی کے حکمرانوں سے کہیں زیادہ پڑھے لکھے اور باشعور تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پوری دنیا کے ناقص نظام ہائے حکومت کے مقابلے میں پاکستان کو ریاست مدینہ کا ماڈل بنانے کا عزم ظاہر کیا تھا۔ وہ اولین ریاست جس کی بنیاد ہادی برحق نبی آخرالزماں سیدنا محمد عربیؐ نے رکھی تھی جس میںبے لاگ انصاف کا یہ اصول طے کردیا گیا تھا کہ اگر محمدؐ کی بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرے گی تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ مسٹر کلین ایسا ہی بے لاگ انصاف پاکستان میں بھی قائم کرنا چاہتے تھے۔ وہ اس ملک کو ہر قسم کے مافیاز سے پاک کرنا چاہتے تھے جنہوں نے اندھیرنگری مچا رکھی تھی اور لوگوں سے زندہ رہنے کا حق بھی چھین لیا تھا۔ مسٹر کلین کے عزائم اتنے نیک تھے اور ارادے اتنے بلند تھے کہ پوری قوم ان کی گرویدہ ہوگئی۔ نوجوان ان کی حمایت میں سڑکوں پر نکل آئے۔ وہ لوگ جو انتخابات میں ہمیشہ غیر جانبدار رہتے تھے وہ بھی مسٹر کلین کو ووٹ دینے کے لیے گھروں سے باہر آگئے۔ یوں 2018ء کے انتخابات میں کامیابی نے ان کے قدم چومے اور وہ تخت اقتدار پر بیٹھ گئے پھر کیا ہوا؟ یہ دل دہلا دینے والا منظر ہے۔
پتا چلا کہ مسٹر کلین نے 22 سال کی محنت سے ماہرین کی جو ٹیم تیار کی تھی وہ تو ان کے دشمنوں نے اغوا کرلی ہے اور ان کے پاس ایسے لوگوں کی ٹیم بھیج دی ہے جو اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے والی ہے۔ مسٹر کلین خود کہتے ہیں کہ ابتدائی چند مہینوں تک تو انہیں سمجھ ہی میں نہیں آیا کہ حکومت کیا ہوتی ہے اور اسے کیسے چلایا جاتا ہے۔ یہ ابتدائی چند مہینے تک بیوروکریسی من مانی کرتی رہی اور وہ اسے پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھتے رہے۔ جب اوسان بحال ہوئے تو انہوں نے جو دستیاب ٹیم تھی اسی سے کام چلانے کا فیصلہ کیا۔ ملک کا سب سے اہم مسئلہ معیشت کی بحالی تھی۔ لوٹنے والے سب کچھ لوٹ کر لے گئے تھے اور اپنے پیچھے قرضوںکا انبار چھوڑ گئے تھے۔ چناں چہ جو صاحب معیشت کے ماہر سمجھے جاتے تھے اور جن کا دعویٰ تھا کہ وہ ملک کی معیشت کو پٹڑی پر لے آئیں گے۔ مسٹر کلین نے انہیں وزیرخزانہ بنادیا لیکن چند مہینوں ہی میں انہوں نے معیشت کا مزید بیڑا غرق کردیا۔ پتا چلا کہ وہ معیشت کے نہیں مارکیٹنگ کے ماہر ہیں اور ایک پرائیویٹ فرم میں اسی منصب پر کام کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی مارکیٹنگ تو خوب کی لیکن ملکی معیشت کو مزید پیچھے دھکیل دیا۔ مسٹرکلین نے انہیں فارغ کرکے دوسرا وزیرخزانہ بنادیا جو انہیں سیدھا آئی ایم ایف
کے پاس لے گیا، حالاں کہ اس سے پہلے وہ قوم سے وعدہ کرچکے تھے کہ وہ خودکشی کرلیں گے آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے۔ ملائیشیا کے مہاتیر محمد نے بھی انہیں سمجھایا تھا کہ دیکھو یہ غلطی نہ کرنا ورنہ آئی ایم ایف پاکستان کو قلاش کردے گا لیکن مسٹر کلین نے اقتدار برقرار رکھنے کے لیے مہاتیر کی بھی نہیں مانی۔ اب پاکستان کی پوری معیشت آئی ایم ایف کی گرفت میں ہے۔ اسٹیٹ بینک پر بھی پاکستان کا کنٹرول نہیں رہا۔ پاکستانی روپے کی قیمت افغان کرنسی کے مقابلے میں بھی آدھی رہ گئی ہے اور اس کا زوال بدستور جاری ہے۔ دوسری طرف آئی ایم ایف کے کہنے پر بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتیں بھی آئے دن بڑھائی جارہی ہیں اور اسی شرح سے مہنگائی میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ مہنگائی کے ستائے لوگ مسٹر کلین سے گھبرانے کی اجازت مانگ رہے ہیں کیوں کہ انہوں نے عوام سے کہہ رکھا تھا کہ گھبرانا نہیں ہے لیکن ایک سیاستدان کے بقول مسٹرکلین خود گھبرائے ہوئے ہیں وہ دوسروں کو گھبرانے سے کیسے روک سکتے ہیں۔
مسٹر کلین اپنے تمام تر دعوئوں کے باوجود کسی بھی مافیا پر ہاتھ ڈالنے میں ناکام رہے ہیں۔ سبب اس کا یہ بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے دوستوں پر مشتمل مشیروں کی جو فوج بھرتی کررکھی ہے وہ ان مافیاز سے ملی ہوئی ہے اور لمبا مال بنارہی ہے۔ وزارت عظمیٰ کے دوران خود مسٹر کلین کے اثاثوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اور انکم ٹیکس کی مد میں اخباری رپورٹ کے مطابق انہوں نے 90 لاکھ روپے جمع کرائے ہیں۔ یہ ایمانداری اچھی بات ہے لیکن اس ایمانداری کا پول بھی تو کھلنا چاہیے اور یہ پول عالمی ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کھولا ہے اس نے پوری دنیا میں کرپشن کے پھیلائو کے بارے میں ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں پاکستان کے بارے میں بتایا ہے کہ عمران خان کے برسراقتدار آنے سے پہلے پاکستان کا کرپٹ ملکوں میں 117 واں نمبر تھا جو اب ترقی معکوس کرکے 140 ویں نمبر پر آگیا ہے۔ یہ ترقی معکوس اس حکومت میں ہر سال ہوتی رہی ہے اور حکومت نے 3 سال میں ایک ریکارڈ قائم کردیا ہے۔ لیکن ٹھیریے مسٹر کلین تو کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے برسراقتدار آتے ہی 3 ماہ کے اندر کرپشن ختم کردی تھی۔ پھر یہ رپورٹ کیسی ہے جسے کم و بیش تمام اخبارات نے ہیڈ لائن میں شائع کیا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ موجودہ حکومت نے کرپشن کی تعریف ہی بدل دی ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پرانی لکیر پیٹ رہی ہے جب کہ پاکستان میں جو کچھ ہورہا ہے صاف اور شفاف طریقے سے ہورہا ہے، کوئی چیز ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ مہنگائی بڑھی ہے تو کرپشن کا ریٹ بھی بڑھ گیا ہے، جوں جوں مہنگائی پھیل رہی ہے کرپشن کا پھیلائو بھی بڑھتا رہا ہے لیکن یہ وہ کرپشن نہیں ہے جس کا رونا ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے رویا ہے۔ وہ کرپشن تو مسٹر کلین نے بہت پہلے ختم کردی تھی اب تو ہر صاحب اختیار اپنا حق خدمت وصول کررہا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ مسٹر کلین کے جانے کے دن آگئے ہیں، انہوں نے جتنی شفافیت دکھانی تھی دکھا دی اب مزید شفافیت کی گنجائش نہیں ہے۔ انہیں بھی اس کا اندازہ ہے۔ چناں چہ انہوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر وہ اقتدار سے باہر آگئے تو پہلے سے زیادہ خطرناک ثابت ہوں گے، لیکن خود ان کے دوستوں کا کہنا ہے کہ وہ ملک و قوم کے لیے جتنے خطرناک ثابت ہوسکتے تھے ہوچکے اب مزید کیا ثابت ہوں گے۔