!اے کشمیر آزادی کا سورج۔۔۔ تیرے ہاتھ کا گہنا ہے

549

جس کی آزادی تکمیل پاکستان ہے،جس کی آزادی دفاع پاکستان ہے، جس کی آزادی معاش پاکستان کے لیے لازمی ہے۔ جس کی آزادی اس کا مقدر ہے اور بھارت اس تحریک آ زادی ٔ کشمیر کو مسلسل دبا رہا ہے۔ یوں کشمیر امت مسلمہ کی نظر یاتی رگوں میں سے ایک رگ ہے۔ وہی کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے، جو آج بھی دشمن کی تلوار تلے تڑپ رہی ہے ظالم دیو کی قید میں بند ہے۔ زندہ رہنے کے لیے مصروف جہاد ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ اس قید سے نکلنے کے لیے کشمیری نوجوان ایک طویل عرصے سے حریت کی تاریخ رقم کر رہے ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔
وہ کشمیر… جو پاکستان کی شہہ رگ ہے… ایک طویل عرصے سے جس کی گلیوں میں پاکستان کی خاطر لہو بہہ رہا ہے، روزانہ کئی کئی جنازوں کی باراتیں ہوتی ہیں۔ جہاں بچے زندہ جلائے جاتے رہے۔ بہنیں بے آبرو وبے لباس ہوتی رہیں۔ وہاں کا ہر دن قیامت کا دن ہوتا۔ اس کا اصل ذمے دار بھارت اور صرف بھارت ہے۔ جہاں لاکھوں بھارتی فوجی آ زادی ٔ کشمیر کے جذبے کو روکنے اور اس کو دبانے کے لیے ظلم کے ہتھیار لیے کھڑے ہیں۔ کبھی قیدو بند، کبھی ظلم و جبر وتشدد درندگی اور کبھی تختہ دار کی صورت میں۔
ذرا سوچیے وہ کشمیر جہاد دن و رات ظلم کی داستانیں رقم ہو رہی ہوں اور اس سے ہی ہماری پاکستانی قوم اور حکمران اس قدر بے تعلق، اس قدر غافل۔ اس قدر اجنبی کہ جیسے ہمیں کوئی پکار سنائی ہی نہیں دیتی کوئی تڑپ، کوئی درد، کوئی کسک محسوس نہیں ہوتی۔ وہاں کے بچیوں بچوں اور عورتوں کی آہ وزاریاں ہمیں سنائی نہیں دیتیں۔ آخر کیوں…؟ کیا ہم مسلمان نہیں؟ مسلمان تو وہ ہوتا ہے جو دوسرے مسلمان بھائی کا درد محسوس کرتا ہے۔ جیسے جسم کے کسی ایک حصے میں تکلیف ہوتی ہے تو جسم اس کا درد محسوس کرتا ہے۔ تو کیا ہم اپنے کشمیری بہن بھائیوں کا درد ان کی فریاد محسوس نہیں کرتے… کیوں آخر کیوں؟ سوچیے کل قیامت کے دن ان مظلوموں کے ہاتھ ہمارے گریبان پکڑیں گے تو ہم کیا عذر پیش کریں گے؟
اللہ کے نبیؐ نے فرمایا تھا کہ: ’’جس کے پاس ایک درہم یا دینار یا سونے چاندی کی ایک ڈلی ہوجو اس نے قرض خواہ کے لیے نہ رکھی ہو اور وہ اسے جہاد میں نہ خرچ کرے تو یہ وہ خزانہ ہے جس سے یہ شخص قیامت کے دن داغاجائے گا‘‘۔ ذرا اس حدیث کو سامنے رکھ کر تھوڑی دیر کے لیے رک کر سوچیے کہ ہم نے اپنے اوقات، اپنی صلاحیتوں، اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے اس جہاد میں کتنا حصہ لیا؟؟سیدنا ابوبکر صدیقؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ: ’’جو لوگ جہاد کرنا چھوڑ دیں گے اللہ تعالیٰ ان پر عذاب مسلط کر دے گا‘‘۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ پاکستان وہ سرزمین جس کو ہم نے صرف اور صرف اسلام کے نام پر حاصل کیا اس سرزمین کے حصول کو بھی اب پچھتر سال بیت گئے ہیں۔ لیکن افسوس صد افسوس یہ75سال ہم نے یونہی بلا مقصد گنوا دیے اور پاکستان بننے کے بعد ہم اپنی اپنی دنیا بنانے میں لگ گئے۔ ملک دو ٹکڑے ہوگیا آج ہم اس ملک کے اندر بدامنی اور ظلم و تشدد کا شکار ہیں۔ فحاشی عریانی اور منکرات کے سیلاب نے ہماری زندگی کا سکون چھین لیا ہے۔ سوچیں یہ اللہ کا ہم پر عذاب نہیں تو کیا ہے؟ اور کشمیر جو پاکستان کی شہہ رگ ہے اس کو بچانے کے لیے ہم نہ اٹھے تو اس سے بڑا عذاب خدا نخواستہ ہم پر آ کر رہے گا۔ ہماری آزادی خطرے میں پڑ جائے گی افسوس ہم اتنی بڑی تباہی پر خاموش ہیں؟؟ لہٰذا یہ بھی دیکھیے کہ شہ رگ دبی ہوئی ہو تو جسم کے باقی حصے بھی آہستہ آہستہ مفلوج ہونا شروع ہو جاتے ہیں اسی لیے’’جہاد کشمیر… جہاد پاکستان ہے‘‘۔
اٹھیے پاکستان کی بقا کے لیے۔۔۔ اپنے کشمیری بھائیوں کی دامے، درمے، قدمے اور سخنے امداد پر کمر بستہ ہو جائیے جیسے نبی کریمؐ مدینے منورہ کو بچانے کے لیے جہاد کرتے تھے اور جیسے قریش کی تجارتی شاہراہ پر قبضہ کر کے اس کی اقتصادیات پر ضرب لگائی گئی تھی، ہم بھی بھارتی اشیاء، بھارتی ثقافت کا بائیکاٹ کریں۔ اس کا بائیکاٹ کر کے بھارت کو اس کثیر رقم سے محروم کر سکتے ہیں جو اسے روزانہ مسلمان ممالک سے تجارت کر کے وصول ہوتی ہے۔ جس میں کم از کم ایک کروڑ روپے روزانہ صرف بھارتی فلموں سے حاصل ہوتے ہیں۔ بھارت کے ثقافتی بائیکاٹ کو ہم اپنا مشن بنالیں۔ جس طرح نبی کریمؐ اور صحابہ کرامؓ نے تمام جاہلیت کی رسوم اور طور طریقے کالعدم قرار دیے تھے۔ ہم بھی تمام ہندوانہ رسوم اور طریقوں کا بائیکاٹ کر کے بھارت کی ذہنی غلامی سے آزاد ہو سکتے ہیں۔ بقول شاعر
سنو اے ساکنانِ بزمِ کشمیر
ندا یہ آرہی ہے آسماں سے
کہ آزادی کا اک لمحہ ہے بہتر
غلامی کی حیات جاوداں سے
آج بھی 2 یا 3 کشمیری نوجوان روزانہ شہید کیے جارہے ہیں۔ آج بھی کشمیر میں بستیاں اجڑ چکی ہیں۔ گھر بھی ویران اور قبرستان آباد ہیں۔ آزادی کی اس تحریک میں لاکھوں کشمیری جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ ہزاروں زخمی و معذور ہیں۔ ہزاروں اپنے گھروں سے بے گھر ہو چکے ہیں۔ اس قدر تاریخ ساز قربانیاں دینے والے کشمیری آزادی سے کم چیز پر راضی نہیں ہو سکتے۔ کشمیریوں کو مسئلہ کشمیر کا ایسا حل چاہیے جو ان کی خواہشات اور امنگوں کی روشنی میں ہو اور وہ حل یہی ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں انہیں حق خود ارادیت دیا جائے۔ کشمیری پاکستان اور بھارت کے درمیان اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں لیکن یہ تعلقات اس وقت تک خوشگوار نہیں ہو سکتے جب تک مسئلہ کشمیر کو حل نہیں کیا جاسکتا دونوں ممالک کے درمیان اصل تنازع مسئلہ کشمیر ہے۔ مسئلہ کشمیر کو ایک طرف رکھ کر بھارت سے دوستی کے رشتے کو استوار کرنا کشمیریوں کے لاکھوں شہداء کے خون سے بے وفائی ہے۔
ہر سال 5 فروری کو حکومت پاکستان کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی مناتی ہے۔ کبھی ہاتھوں کی زنجیر بنا کر، کبھی آدھا گھنٹہ کھڑے ہو کر کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیا جاتا ہے۔ اس طرح کا سطحی اور نمائشی اظہار یکجہتی اگر عوام کی طرف سے ہو تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن حکومت پاکستان جو ایٹمی طاقت کی مالک ہے جس نے 6لاکھ فوج پال رکھی ہے۔ بجٹ کا بھاری حصہ دفاع پر خرچ ہورہا ہے، تو یہ نمائشی گڈے اور کھلونے کس مرض کی دوا ہیں؟ کشمیریوں کی جدوجہد اور لازوال قربانیاں ایک دن ضرور رنگ لائیں گی۔ اور کشمیر پر آزادی کا سورج طلوع ہو کر رہے گا۔
یہ ہو نہیں سکتا کہ ظلم ہو اور حساب نہ ہو، خدا کے نام لیوا کٹتے رہیں اور خدا کا عذاب نہ ہو، کفر پہ غالب آتے ہیں ہمیشہ مٹھی بھر ہی مسلمان، کشمیر بنے گا پاکستان، کشمیر بنے گا پاکستان۔
ان شاء اللہ