بلوچستان میں پھر دہشت گردی

782

بلوچستان میں دہشت گردوں کے حملوں میں پاک فوج کے گیارہ جوان وطن پر قربان ہو گئے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق 25 اور 26 جنوری کی درمیانی شب دہشتگردوں نے چیک پوسٹ پر حملہ کیا، فائرنگ کے تبادلے میں ایک دہشت گرد ہلاک جب کہ متعدد زخمی ہوئے، سیکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی میں 3 دہشت گرد گرفتار کر لیے گئے جب کہ علاقے میں کلیئرنس آپریشن جاری ہے۔ دریں اثناء ایک اور اطلاع کے مطابق چمن بائی پاس پر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے لیویز کا ایک اہلکار محمد نعیم شہید ہو گیا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے اس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ دہشت گردوں کو انجام تک پہنچانے کے لیے آپریشن جاری رہے گا اور مسلح افواج ملک سے دہشت گردی کے خاتمہ اور ملکی سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لیے کوئی بھی قیمت چکانے کو تیار ہیں۔ وزیر اعظم عمران خاں نے پاک فوج کے جوانوں کی شہادت پر گہرے رنج و غم اور شہداء کے لواحقین سے اظہارہمدردی کرتے ہوئے کہا کہ جوانوں کے خون کا ایک ایک قطرہ ملک کے تحفظ کا ضامن ہے بزدل دشمن کو ایک مضبوط قوم سے سامنا ہے جس نے پہلے بھی دہشت گردی کو شکست دی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ نے تصدیق کی کہ ملک میں دہشت گرد تنظیموں کے سلیپرز سیلز پھر سرگرم ہوئے ہیں، جن سے نمٹنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ افغان طالبان سے متعلق شیخ رشید نے کہا کہ طالبان حکومت مثبت کردار ادا کر رہی ہے، افغان طالبان ٹی ٹی پی کو سمجھا رہے ہیں کہ پاکستان میں کارروائیوں سے باز رہیں مگر ٹی ٹی پی والے کہیں نہ کہیں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے ہیں۔ کالعدم تحریک طالبان کی جانب سے سیز فائر کی خلاف ورزی کے بعد مذاکرات کا دروازہ تقریباً بند ہو چکا ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گرد دوبارہ سرگرم ہوئے ہیں۔ ٹی ٹی پی کی مذاکرات کی شرائط پوری ہونا ممکن نہیں تھیں۔ طالبان سے ہمیں کوئی شکوہ نہیں لیکن کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ٹی ٹی پی پر افغان طالبان کا بھی زور نہیں چلتا۔ وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ آئندہ دو ماہ میں ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کا خدشہ ہے تاہم دہشت گردی کی اس تازہ لہر پر قابو پا لیا جائے گا۔ جیسا کہ وزیر داخلہ نے تسلیم کیا ہے کہ گزشتہ کچھ عرصہ سے ملک میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر دیکھنے میں آئی ہے بلوچستان کے حالیہ واقعات سے قبل بھی اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ اور لاہور میں تسلسل سے دہشت گردی کی کارروائیاں کی گئی ہیں جن میں مسلح افواج کے علاوہ عام لوگوں کو بھی خاصا جانی و مالی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ توقع یہ کی جا رہی تھی کہ افغانستان سے امریکہ کی ذلت آمیز شکست، اس کی افواج کے انخلاء، امریکی کٹھ پتلی حکومت کے خاتمہ اور وہاں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پاکستان کو دہشت گردی سے نجات مل جائے گی۔ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد کچھ عرصہ تک حالات قدرے بہتر بھی رہے۔ طالبان نے اعلان کیا تھا کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت کسی کو نہیں دیں گے، طالبان حکومت کے تعاون سے حکومت پاکستان نے ٹی ٹی پی سے جنگ بندی کا معاہدہ بھی کیا جس کے مثبت نتائج سامنے آئے مگر بدقسمتی سے فریقین اس معاہدہ میں توسیع پر متفق نہ ہو سکے، مبصرین کے ایک گروہ کی رائے ہے کہ دہشت گردی کی یہ تازہ لہر جنگ بندی میں اس عدم توسیع کا نتیجہ ہے تاہم اس ضمن میں یہ پہلو بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے کہ بلوچستان میں کافی عرصہ سے جاری تخریبی سرگرمیوں کے پس پشت قوم پرستی کے نام پر منظم کئے گئے گروہ سرگرم رہے ہیں جن کی پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کی جانب سے پشت پناہی کسی سے پوشیدہ نہیں، خصوصاً ان حالات میں کہ لاہور کے تاریخی انارکلی بازار میں چند روز قبل ہونے والی دہشت گردی کی واردات کی ذمہ داری ٹی ٹی پی نے نہیں بلکہ بلوچ نیشنل آرمی نامی تنظیم نے قبول کی تھی۔ اس لیے حکومت اور قومی سلامتی کے اداروں کو اس جانب خصوصی توجہ مرکوز کرتے ہوئے ایسی قوم پرست تنظیموں کی سرکوبی اور ان کو بھارت سے ملنے والی ہر طرح کی امداد و سرپرستی روکنے کا اہتمام کرنا چاہئے دوسری جانب افغان طالبان کے تعاون سے ٹی ٹی پی کے انتہا پسند عناصر کے بھی افغانستان سے پاکستان داخلہ اور یہاں تخریب کاری کی روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات لازمی ہیں یہاں یہ بات حوصلہ افزاء ہے کہ وزیر داخلہ نے تسلیم کیا ہے کہ ہمیں افغان طالبان سے کوئی شکوہ نہیں گویا حکومت پاکستان نئی افغان طالبان حکومت کے طرز عمل سے مطمئن ہے ضرورت ہے کہ اس دو طرفہ خیر سگالی کے جذبہ کو مزید فروغ بھی دیا جائے اور اسے قومی سلامتی کو یقینی بنانے کی خاطر بہتر انداز میں استعمال کرتے ہوئے ملک میں دہشت گردی اور تخریب کاری کی سرگرمیوں کے قلع قمع میں بھی کام میں لایا جائے اس کے ساتھ یہ عرض کرنے میں بھی شاید کوئی حرج نہیں کہ عالمی سطح پر درپیش صورت حال کے پیش نظر ہمیں اپنے دشمنوں میں کمی اور دوستوں میں اضافہ پر بھی توجہ مرکوز کرنا چاہئے کیوں کہ کسی سے بھی مذاکرات کے دروازے بند کرنے کی بجائے مفاہمت اور مصالحت سے معاملات کا حل نکالنا ہی ہمارے قومی مفاد میں ہے۔