نیوی سیلنگ کلب کے فیصلے کیخلاف وزارت دفاع کی انٹراکورٹ اپیل،رجسٹرار نے اعتراض عائد کردیا

283

اسلام آباد ہائی کورٹ میں نیوی سیلنگ کلب اور فارمزکے فیصلے کے خلاف وزارت دفاع نے انٹرا کورٹ اپیل دائر کردی ہے۔

رجسٹرارآفس اسلام آباد ہائی کورٹ نے انٹراکورٹ اپیل پراعتراض عائد کردیا۔

وزارت دفاع کی اپیل میں چیف جسٹس اطہرمن اللہ کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی۔

یہ بھی استدعا کی گئی کہ فیصلےمیں نیوی اور مسلح افواج کے خلاف ڈیکلریشن کالعدم قرار دی جائیں۔

سات جنوری کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے راول جھیل کے کنارے نیوی سیلنگ کلب کی تعمیر غیر قانونی قرار دیتے ہوئے 3 ہفتوں میں اسے گرانے کا حکم جاری کیا تھا۔

عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں لکھا کہ پاک فوج کا اہم اسٹیٹس ہے جس کا مینڈیٹ آئین میں بتایا گیا ہے، نیوی کا اختیار نہیں کہ رئیل اسٹیٹ وینچر کرے، رئیل اسٹیٹ بزنس کے لیے ادارے کا نام استعمال نہیں کیا جا سکتا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیصلے میں یہ بھی لکھا کہ اتھارٹی کو اختیار نہیں تھا کہ نیوی کو این او سی جاری کرتی، پاکستان نیوی نے نیشنل پارک ایریا پر تجاوز کیا، سیلنگ کلب غیر قانونی ہے لہذا نیوی سیلنگ کلب کی عمارت تین ہفتوں میں منہدم کی جائے۔

عدالت نے لکھا کہ سابق نیول چیف ایڈمرل ظفر محمود عباسی نے غیر قانونی عمارت کا افتتاح کر کے اپنے آئین کی خلاف ورزی کی لہذا غیر قانونی عمارت میں ملوث افراد کے خلاف مس کنڈکٹ اور فوجداری کارروائی کی جائے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایڈمرل ریٹائرڈ ظفر محمود عباسی اور دیگر ذمہ داروں کے خلاف کرمنل کارروائی کا حکم دیتے ہوئے آڈیٹر جنرل کو نیول فارمز کا آڈٹ کر کے قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ لگانے کی ہدایت بھی کی۔

تیرہ جنوری کو پاک بحریہ کی جانب سے نیوی سیلنگ کلب گرانے اور پاکستان نیول فارمز کی اراضی تحویل میں لینے کے فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

نیول گالف کورس کو سی ڈی اے کی تحویل میں دینے کا فیصلہ بھی پاک بحریہ کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا، پاکستان نیوی کی جانب سے انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت کے لیے بینچ تشکیل دیا گیا۔

پاکستان نیوی نے دو انٹرا کورٹ اپیلوں میں سنگل بینچ کے الگ الگ فیصلوں کو چیلنج کیا، انٹراکورٹ اپیل میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللّٰہ کے 7 اور 11 جنوری کے عدالتی فیصلوں کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی۔

اسپیشل بینچ جسٹس عامرفاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل ہے۔

واضح رہے کہ اسلام آباد میں راول جھیل کے ساتھ قائم نیوی سیلنگ کلب اور نیوی فارمز کے خلاف شہری زینت سلیم نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق اسلام آباد نیشنل پارک میں تعمیرات غیر قانونی ہیں کیونکہ اس سے قدرتی ماحول متاثر ہو رہا ہے۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ راول ڈیم سے راولپنڈی شہر کو پانی کی ترسیل کی جاتی ہے، اس لیے راول ڈیم کے کنارے سیلنگ کلب سے ماحولیاتی آلودگی پھیلے گی۔

جولائی 2020 سے یہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت تھا، ابتدائی طور پر نیوی حکام نے موقف اپنایا تھا کہ 1991 میں حکومت پاکستان نے یہ جگہ سیلنگ کی پریکٹس کے لیے پاکستان نیوی کے لیے مختص کی تھی۔

کیس کی متعدد سماعتیں ہونے کے بعد چیف آف نیول سٹاف نے تحریری جواب بھی جمع کرایا تھا۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اکتوبر 2020 میں بھی نیوی فارمز اور کلب پر فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا، لیکن فیصلے کی تاریخ نہیں دی گئی تھی، پھر دوبارہ کچھ وضاحت طلب نکات پر عدالت نے سماعت مقرر کی اور حکام سے سوالات کے بعد چھ جنوری کو فیصلہ دوبارہ محفوظ کیا جبکہ نیول سیلنگ کلب اور نیول فارمز میں حتمی فیصلے تک تعمیرات پر پابندی بھی برقرار رکھی گئی تھی۔