ٹیکس نظام کو سہل بنا کر سرمایہ کاروں کو سہولتیں فراہم کی جائیں

215

کراچی(اسٹاف رپورٹر )سارک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر اورچیئرمین یونائٹیڈ بزنس گروپ افتخار علی ملک نے کہا ہے کہ ملکی صنعت و تجارت اور قومی برآمدات کے فروغ میں بزنس کمیونٹی کا کردار ہمیشہ ہر اول دستے کارہا ہے، نامساعد حالات کے باوجود ملک کے تاجروں اور صنعتکاروں نے قومی ترقی میں بھرپور حصہ لیا، حکومت کو چاہئے کہ صنعتی شعبے اور برآمدات کے فروغ کیلئے اپنا کردار ادا کرے اورحکومت کومعاشی بہتری کیلئے غیرمقبول فیصلے بھی کرنا پڑے تو ضرور کئے جائیں۔افتخار علی ملک نے ایمبیسیڈر رحمت اللہ جاویدسے ملاقات اوریو بی جی کے ترجمان گلزارفیروزسے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمیں ہرحال میں بین الاقوامی تجارتی قوانین اور سرٹیفکیشن کے معیارات کے مطابق خود کو بدلنا اورتیار کرنا ہوگا،حال ہی میں عالمگیریت اور بین الاقوامی تجارت کے منفی اثرات نے ترقی یافتہ ممالک میں بہت زیادہ سیاسی اہمیت حاصل کرناشروع کردی ہے جس سے عالمگیریت کیلئے ناموافق نتائج پیدا ہورہے ہیں جیسے کہ بریگزٹ اور امریکا چین تجارتی جنگ وغیرہ، ڈبلیوٹی او کی حالیہ تجارتی ترقی کی پیش گوئیوں نے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ڈبلیوٹی او کو توقع ہے کہ عالمی تجارتی سامان کی تجارت 2018کیلئی4.4فیصد کی شرح سے بڑھے گی اور2023تک کم ہوکر 4فیصد رہ جائے گی جو طویل مدتی اوسط4.8فیصد سے بہت کم ہے،ڈبلیوٹی او نے یہ بھی خبردار کیا ہے کہ پیش گوئیاں مناسب تجارتی پالیسیوں پرعمل کرنے والی حکومتوں پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہیں۔افتخار علی ملک نے کہا کہ اس وقت ترقی یافتہ ممالک زیادہ تحفظ پسند بن رہے ہیں اورکثیرالجہتی مذاکرات رکے ہوئے ہیں،ایسے ممالک جو اپنی معیشتوں میں پائیدار معاشی نمو پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیںانہیں ترقی کیلئے دیگر راہوں کی جانب دیکھنا اور اپنے علاقائی گروپوںمیں فعال طور پر شامل ہونا چاہیئے،ان کے ممالک کیلئے یہ بہترین حکمت عملی بن سکتی ہے اور سارک کے حوالے سے بے حد کارگر بھی ثابت ہوسکتی ہے جس کے نتائج آئندہ برسوں میں مفید برآمد ہوسکتے ہیں کیونکہ جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون کی تنظیم (سارک)تعاون کرنے کی چابی ہے۔افتخار علی ملک کاکہنا تھا کہ ٹیکس نظام میں اصلاحات کے نتیجے میں سرمایہ کاری کو فروغ دیا جاسکتا ہے، خطے میں سب سے زیادہ توانائی کے نرخ پاکستان میں ہیں، حکومت کو چاہئے کہ وہ صنعتی پیداواری اداروں کیلئے توانائی کے نرخوں میں کمی لائے، ٹیکس نظام کو سہل و آسان بنایا جائے۔