میں تمہیں آخری دھمکی دے رہا ہوں

790

وزیراعظم عمران خان کی ٹیلی فون کالز کے جواب میں تقریر سنی۔۔۔ یہ تقریر نہیں تمسخر، ٹھٹھا، مضحکہ اور تذ لیل تھی ان کی جنہوں نے انہیں سلیکٹ کیا، ان کی جن پر وہ حکمران ہیں۔ امریکا کے مشہور شاعر رابرٹ فراسٹ سے کسی نے پوچھا ’’وہ کون سا واقعہ ہے جو آپ کی زندگی پر سب سے زیادہ اثرانداز ہوا۔ جواب دیا ’’جب میں بارہ سال کا تھا تو ایک موچی کے ہاں کام کرتا تھا اور دن بھر منہ میں کیلیں دبائے پھرتا تھا آج میں جس مقام پر بھی ہوں اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ میں نے وہ کیلیں اور کوکے نگلے نہیں تھے‘‘۔ لگتا ہے ہم نے بحیثیت قوم ساری کیلیں اور کوکے حکمرانوں کی صورت نگل لی ہیں اور اب وہ ہمارے جسم وجاں کو اندر اور باہر سے چھیدے دی رہی ہیں۔ پورا بدن لہو رورہا ہے۔ الف لیلہ کی شہرزاد اپنی آبرو بچانے کے لیے ہر رات ایک نئی کہانی سناتی تھی وزیراعظم عمران خان اکتالیس مہینے سے ایک ہی کہانی سنا رہے ہیں: نواز شریف چور تھا، نواز شریف کرپٹ تھا، میں نواز شریف کو چھوڑوں گا نہیں۔ اب تو وہ اپنے لانے والوں پر ہی پلٹ پڑے ہیں۔ انہیں اپنے خطرناک ہونے کی دھمکیاں دے رہے ہیں جن کے پاس ہر سیاسی حکومت اور لیڈر سے نمٹنے اور اس پر حاوی ہونے کے لیے بہت کچھ ہوتا ہے۔ عمران خان کو جلد پتا لگ جائے گا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزیراعظم عمران خان گمبھیر قومی، بین الاقوامی، سیاسی اور اقتصادی مشکلات سے نکلنے کے لیے قوم سے کسی راہ عمل پر بات کرتے، وہ دھمکیوں پر اتر آئے۔ لیڈربہت حوصلہ مند ہوتا ہے۔ دھمکیاں تو کمزور لوگ دیتے ہیں۔
نشے میں دھت ایک ڈرائیور نے کئی سال پہلے ہماری موٹر سائیکل کو سائیڈ ماری تھی۔ تب سے اب تک ہمارا بایاں بازو درد کرتا ہے۔ یہاں ایک بازو نہیں پورا بدن ہی درد سے چور ہے۔ ہر آدمی کراہ رہا ہے۔ حکومت پر لعنت
کررہا ہے اور وزیراعظم کا حال اس شخص کی طرح جو کسی لڑکی کی لعنت کو پانچ بجے ملنے کا ٹائم تصور کررہا ہو۔ وہ اس خوش گمانی میں ہیں کہ لوگوں کی زندگیوں کو برباد کرنے کے بعد وہ ان میں جائیں گے تو لوگ ’’آیا آیا کپتان آیا‘‘ کے نعرے لگائیں گے۔ یہ بے خبری اور بے حسی کی وہ منزل ہے جس کے بعد ذلتیں اور رسوائیاں وہ تماشا بناتی ہیں کہ کہیں پناہ نہیں ملتی۔ جھوٹ، جھوٹ اور دانائی سے عاری ان کی حکومت نے اس ملک کی آبرو کے ساتھ جو دست درازی کی ہے اس پر شرمندہ ہونے کے بجائے جس تکبر اور گھمنڈ کا مظاہرہ انہوں نے فون کالز کے جواب میں کیا ہے اس پر وہ کم ظرف لوگ یاد آگئے جنہیں بیئر سے بھی نشہ ہوجاتا ہے اور وہ اول فول بکنے لگتے ہیں۔ ہوش ہی نہیں ہوتا کیا کہہ رہے ہیں۔ پاکستان دنیا کا سستا ترین ملک ہے۔۔۔ مجھے مہنگائی کی وجہ سے نیند نہیں آتی۔
وزیراعظم عمران خان کا حال اس شاعر جیسا ہے جو بے پناہ گھٹیا، گرا ہوا اور غیر موزوںکلام سنا کر داد کا طالب ہو۔ وقت گزاری کے لیے بھی آدمی ڈھنگ کی صحبت کا انتظام کرتا ہے انہوں نے اتنے بڑے اور حکومت کرنے کے لیے مشکل ترین ملک کے لیے دنیا جہان کے نکمے، شیخی خور، گمراہ، کرپٹ، کار حکمرانی سے نا آشنا، جھوٹے، مہلک اور زندگیوں کو تباہ کرنے والے لوگ ہر سطح پر اپنے گرد اکٹھے کر لیے۔ ظاہر ہے یہی کچھ ہونا تھا جو ہوا۔ جب جہاز ڈوبنے لگتے ہیں تو سب سے پہلے چوہے سمندر میں چھلانگ لگاتے ہیں۔ شہزاد اکبر وزیراعظم کی نگاہ مردم شناس کا وہ شاہکار تھا جس کی نالائقی اور ٹھگی دور ہی سے خطرے کی گھنٹیاں بجاتی رہتی ہے۔ یہ گھنٹیاں ہر کان کے پردے پھاڑ رہی تھیں سوائے عمران خان کے۔ ’’میں کسی کرپٹ، چور اور ڈاکو کو چھوڑوں گا نہیں‘‘ عمران خان کا یہ بیانیہ ان کے اپنے علاوہ جن لوگوں کی وجہ سے پاپ کی وہ گٹھڑی بنا جس کے بوجھ سے ان کی حکومت عنقریب ان سمیت جیل منتقل ہونے جارہی ہے اس میں شہزاد اکبر کا بڑا کردار ہے۔ کچھ لوگ سوال کررہے ہیں کہ اگر مجھے نگالا گیا کے حوالے سے جس طرزعمل کی وزیراعظم نے دھمکی دی ہے اگر ان کے مشیر احتساب شہزاد اکبر بھی استعفے کے بعد خطرناک ہوگئے اور گہرے بدنما راز کھولنے شروع کردیے تو؟
عمران خان کی دھمکی کے بعد ان کے اقتدار کی بقا ایسی ہی ہے جیسے پنکھا سر پر گرجائے اور کھوپڑی سلامت رہنے کی امید۔ دوران تقریر وہ ایسے اکھڑے اکھڑے، بددماغ، نا ہموار اور نشے میں پھسلے پھسلے نظر آرہے تھے کہ ان کی ہر بات تضاد سے پُر اور دھکے دے کر باہر نکالے جانے کے لائق تھی۔ نجانے ان کے سائونڈ بکس میں کس نے مینڈک پھنسا دیا ہے کہ وہ گزشتہ ساڑھے تین سال سے جب بھی منہ کھولتے ہیں ایک ہی ٹراتی ہوئی آواز میں ایک سے جملے باہر نکلتے ہیں۔ محض بولنے سے دعویٰ کرنے سے، جھوٹ، جھوٹ اور جھوٹ بولنے سے کام نہیں چلتے۔ حکمت ودانش کی بارگاہ میں ہر وقت حاضر رہ کر سر جھکائے، سوچ سوچ کر قدم اٹھانے پڑتے ہیں تب کہیں سرنگ کے دوسرے سرے پر روشنی کے آثار نظر آتے ہیں۔ عمران خان جلد ہی ماضی کا قصہ بن جائیں گے۔ انہوں نے کسی اہل غرض سے سیدھے منہ بات کی اور نہ ہی اس ملک کے مسائل حل کرنے پر کوئی توجہ دی۔ ان کے گھمنڈ، تکبر اور منتقم مزاجی ہی ان کی ناکامی اور بد نصیبی کی ذمے دار ہے۔ عمران خان نے اس قوم کو بہت مایوس کیا ہے۔ احساس زیاں ہے کہ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ زندگی یوں بھی برباد ہوسکتی ہے۔ ماہ وسال یوں بھی رائیگاں جاسکتا ہے۔ منیرنیازی کی ایک پنجابی نظم ملا حظہ فرمائیے۔
اَج دا دن وی ایویں لنگیا‘‘
پُورب ولوں چڑھیا سُورج
تے پچھم آن کھلویا
اَج دا دن وی ایویں لنگیا
کوئی وی کم نہ ھویا
نہ ملیا میں خلقت نُوں
نہ یاد خدا نُوں کیتا
نہ میں پڑھی نماز تے
نہ میں جام شراب دا پیتا
خوشی نہ غم، کوئی کول نہ آیا
ناں ھسیا، نہ رویا
اَج دا دن وی ایویں لنگیا
کوئی وی کم نہ ھویا
ترجمہ: آج کا دن بھی ایسے ہی گزر گیا۔ مشرق سے سورج طلوع ہوا اور مغرب میں غروب ہو گیا۔ آج کا دن بھی ایسے ہی گزر گیا۔ کوئی بھی کام نہیں ہوا۔ نہ میں لوگوں سے ملا اور نہ ہی خدا کو یاد کیا۔ نہ میں نے نماز پڑھی اور نہ ہی شراب کا جام پیا۔ دل میں کسی خوشی نے بسیرا کیا اور نہ غم نے۔ نہ ہنسا اور نہ ہی رویا۔ آج کا دن بھی ایسے ہی گزر گیا۔ کوئی بھی کام نہیں ہوا۔