وزارت عظمیٰ کا تگڑم

329

میاں نواز شریف تین بار پاکستان کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں، اس حوالے سے کسی ستم ظریف نے انہیں وزارت عظمیٰ کا تگڑم قرار دیا ہے، موجودہ وزیر اعظم جب سے برسر اقتدار آئے ہیں، ملک و قوم کی فلاح و بہبود کے حوالے سے حکمت عملی تیار کرنے کے بجائے شریف خاندان کو چور ڈاکو اور لٹیرا ثابت کرنے کی حکمت عملی بڑی ثابت قدمی سے بروئے کار لارہے ہیں، ستم بالائے ستم یہ کہ عدالت عظمیٰ نے میاں نواز شریف کو ناصرف وزارت عظمیٰ اور مسلم لیگ کی صدارت سے فارغ کر دیا بلکہ موصوف کو سیاست میں حصہ لینے کے لیے بھی نااہل قرار دے دیا۔ اور عمران خان کو امین اور صادق قرار دے کر ملک و قوم سے انتہائی اذیت ناک مذاق کا ارتکاب کیا ہے، آثار وقرائین بتا رہے ہیں کہ عمران خان وزارت عظمیٰ کا سہ راہا بننا چاہتے ہیں، مگر کرکٹ اور سیاست میں ایک بڑا فرق یہی ہے کہ سیاست میں اقتدار بائی چانس نہیں ملتا اور کرکٹ میں بہت سے اعزازت بائی چانس مل جاتے ہیں۔ ان دنوں وزیر اعظم عمران خان کی بد دیانتی اور کرپشن کے قصے گلی کوچوں میں عیسیٰ خیلوی کے گیتوں کی طرح گونج رہے ہیں اور خان صاحب کے حواری اسے عدالت عظمیٰ کی توہین قرار دے کر عوام کو ڈرا رہے ہیں، مگر اب ان کی کوئی بات مولوی مدن کی سی بات نہیں رہی، سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف عمران خان کے بارے میں بولنا وقت کا زیاں سمجھتے ہیں، وہ بھی بول پڑے ہیں کہتے ہیں عمران خان تو بنارسی ٹھگوں کا بھی باپ نکلا اسلامی جمہوریہ پاکستان کے چیف جسٹس نے جسے امین اور صادق کا سرٹیفکیٹ جاری کیا تھا وہ تو پاکستان کا سب سے بڑا ڈکیت نکلا۔
میاں نواز شریف کو دکھ ہے کہ بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر ان کی زندگی تباہ کر دی گئی اور جسے امین اور صادق کا سرٹیفکیٹ دیا گیا وہ ٹھکوں کا بھی سرغنہ ہے، یہ اللہ کے فیصلے ہیں اللہ کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں، کون چور ہے کون ڈاکو ہے کون لٹیرا ہے، سب کچھ سامنے آچکا ہے، بلکہ بہت کچھ واضح ہو چکا ہے بنارسی ٹھگوں کے بارے میں ہم سب نے بہت سنا ہے ان کے قصے، ان کی داستانیں بڑی حیران کن ہوتی تھیں مگر عمران خان نے ان کا بھی ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ المیہ یہ بھی ہے کہ سول قیادت فوجی قیادت کو کھینچ کھانچ کر اپنے صفحے پر لے آتی ہے، اور فوجی قیادت اپنا صفحہ پھاڑ کر سول قیادت کے صفحے پر براجمان ہونا اپنا فرض سمجھنے لگتی ہے، یوں دونوں کے فریضے اوپر نیچے ہو کر گڈ مڈ ہو جاتے ہیں، قوم جاننا چاہتی ہے کہ سول قیادت کیا کررہی ہے اور فوجی قیادت کیا کررہی ہے، اگر دونوں قیادتیں اپنے اپنے صفحے پر رہیں تو عوام کو تذبذب میں مبتلا ہونے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ بلوچ عوام ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ میں جماعت اسلامی کی معاونت کریں گے کیونکہ وہ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ بلوچستان کے مسائل کا حل صرف اسلامی نظام کے نفاذ میں ہے، اسلام مساوات کا درس دیتا ہے جب تک ملک میں مساوات پر مبنی نظام رائج نہیں کیا جائے گا، عوام کی خوشحالی اور ملک کی توقیری کا خواب خواب ہی رہے گا لیکن زندگی خوابوں کے سہارے نہیں گزاری جاسکتی۔
شاعرانہ تعلیوں پر تنقید کرنے والوں کی کمی نہیں کہنے والے سچ ہی کہتے ہیں کہ نثری ادب اور شعری ادب کی تخلیق کرنے کی صلاحیت سے محروم ہونے والے اپنی محرومی کو تسلی دینے کے لیے تنقید کا سہارا لیتے ہیں، گویا بے کار مباش کے مصداق بخیے ادھیڑنے کا شغل اختیار کر لیتے ہیں، مگر آج تک کسی نے سیاسی تعلیوں پر لب کشائی کی کوشش نہیں کی، جبکہ حکمران طبقے کی سیاسی تعلیوں نے قوم کا مستقبل برباد کر دیا ہے ممتاز شاعر ظفر اقبال ظفر کے اس شعر کو حرز جاں بنایا ہوا ہے۔
جھوٹ بولا ہے ظفر تو اس پہ قائم بھی رہو
آدمی کو صاحب کردار ہونا چاہیے
یہ ایک ایسا معاملہ ہے کہ جس پر حکومت اور اپوزیشن صاحب کردار ہونا اپنا حق سمجھتی ہیں، مگر ایسے صاحب کردار وہ لوگ ہوتے ہیں، جن کے دیدے کا پانی مر جاتا ہے، دیدے کا پانی مر جائے تو آدمی کبھی پانی پانی نہیں ہوتا، شرم و حیا سے عاری ہو جاتا ہے، حقیقی معنوں میں صاحب کردار وہی ہوتا ہے جس کی آنکھ میں شرم و حیا ہوتی ہے، جھوٹا آدمی صاحب کردار تو ہوتا ہے مگر اس کا کردار منفی ہوتا ہے کیونکہ جھوٹ بولنا کردار کی سب سے بڑی خامی ہے، المیہ یہی ہے کہ وطن عزیز کے عزیزانِ مصر کے تمام کردار ہی منفی ہیں، منی بجٹ جسے مُنّی بجٹ کہنا زیادہ بہتر ہوگا ہم انہی کالموں میں اس حوالے سے کہہ چکے ہیں کہ منی بجٹ کی کامیابی کے امکانات اتنے روشن ہیں کہ اس سے عوام کی آنکھیں چندھیا گئی ہیں، ملک کی دو بڑی سیاسی پارٹیاں جو بارہا حکومت سے لطف اندوز ہو چکی ہیں، اپنی باری کا لالی پاپ دیکھ کر ان کی آنکھیں بھی چندھیا گئی ہیں، ان کی کارکردگی شور و شغف تک محدود رہے گی،
اس سے آگے نہیں بڑھ سکتی، جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ حکومت کمزور ہے ان کی نزدیک کی نظر بہت کمزور ہے، مگر دور کی نظر بہت تیز ہے، چودھری فواد نے درست کہا ہے کہ اپوزیشن اپنے پائوں پر کھڑا ہونا سیکھے اگر پائوں میں جان نہیں ہے تو بیساکھی کا سہارا لے، چودھری صاحب حکومت بھی اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی سکت نہیں رکھتی، یہ الگ موضوع ہے کہ وہ جن بیساکھیوں پر کھڑی ہے اس کی قیمت قوم بھگت رہی ہے، تحریک عدم اعتماد کا غلغلہ تو بہت ہو رہاہے، مگر یہ بھی بلبلہ ہی ثابت ہوگا کیونکہ مقتدر قوتیں اس حقیقت کا ادراک رکھتی ہیں کہ جس کے چل چلائو کا وقت آگیا ہو اور وہ رخت سفر باندھنے کی تیاری کررہا ہو اسے گرتی ہوئی دیوار سمجھ کر دھکا مارنا عقل دشمنی ہے یہ کیسی بد نصیبی ہے کہ وطن عزیز میں عقل دشمن کی نہیں قوم دشمنوں کی بھی کمی نہیں۔