مسجد کے دروازے کھلے ہیں

726

مسجد کے دروازے سب کے لیے کھلے ہیں یہ اعلان مسلم ممالک کے لیے تو کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے لیکن بیرون ملک خاص طور سے مغربی ممالک کے لیے ایک نیا تجربہ تھی۔ جرمنی میں مساجد کے دروازے سب کے لیے کھول دینے کا دن 1997ء سے منایا جارہا ہے۔ یہ خاص طور سے ایک ایسے دن منایا جاتا ہے جس دن پورے جرمنی میں یوم اتحاد کی چھٹی ہوتی ہے۔ اس دن کا انتخاب اس لیے کیا گیا ہے کہ اس سے جرمن عوام اور مسلمانوں کے درمیان ربط میں آسانی ہو۔ جرمنی میں مسلمانوں کی مرکزی کونسل کے مطابق اس دن تقریباً ایک لاکھ افراد مساجد کا دورہ کرتے ہیں۔ اس دن مسلم برادری مساجد میں آنے والوں کو اسلام کے متعلق بتاتی ہے۔ خاص طور سے اس لحاظ سے کہ مسلمانوں کے ہاں مسجد کا کردار عبادت گاہ سے آگے بڑھ کر ایک کمیونٹی سینٹر کا سا ہے۔ مسجد میں آنے والے غیر مسلموں کو مسجد کے مختلف حصے دکھائے جاتے ہیں۔ البتہ اُس سے پہلے مسجد کے ضوابط اور طریقے بھی بتائے جاتے ہیں۔ ان ضوابط میں سے ایک یہ بھی ہوتا ہے کہ مسجد میں داخل ہونے سے پہلے اپنے جوتے اُتارے جائیں۔ تا کہ مسجد کا فرش صاف اور پاک رہے۔ مسجد میں آنے والے نماز ادا کرنے والے افراد کو دوران عبادت دیکھ بھی سکتے ہیں۔ خاص طور سے ظہر اور عصر کی نماز میں۔ نماز کے بعد مہمانوں کو چائے بھی پیش کی جاتی ہے۔ کبھی کبھی تحفہ میں تسبیح اور قرآن کا ترجمہ بھی دیا جاتا ہے۔
یہ بات ٹھیک ہے کہ دُنیا میں امن اور سکون کی فضا پیدا کرنے کے لیے مذاہب کا باہمی احترام بہت ضروری ہے۔ مذاہب اور ان کی مقدس شخصیات کی توہین سے معاشرے میں شدت پسندی بڑھتی ہے۔ نفرت کو ہوا ملتی ہے۔ اسلام کسی دوسرے مذہب اور ان کی مقدس شخصیات کے بارے میں کسی قسم کی تضحیک کرنا پسند نہیں کرتا۔ ایک مسلمان کو ان کا دین یہ بات سیکھاتا ہے کہ کسی دوسرے کے مذہب اور مقدس شخصیات کا مذاق نہ اُرایا جائے۔ لیکن مغرب اور خاص طور سے فرانس کے وزیراعظم مسلمانوں کے حوالے سے نفرت انگیز بیان دیتا ہے اور توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کرتا ہے۔ فرانس میں فروری 2021ء میں قومی اسمبلی میں مسلم مخالف بل منظور کرلیا تھا۔ یہ بل منظور کرتے ہوئے فرانسیسی حکومت کا کہنا تھا کہ اس قانون کا مقصد ہر ایک کو فرانسیسی معاشرے میں عملاً شامل کرنا ہے۔ اس قانون میں کہا گیا ہے کہ تمام لسانی، مذہبی اور ثقافتی طبقات کے لیے ملک کے سیکولر تشخص کے ساتھ ہم آہنگ ہونا ضروری ہے۔ انہیں لکھ کر دینا ہوگا کہ وہ فرانس کی لبرل اور روشن خیال اقدار کو تسلیم کرتی ہیں۔ اس قانون کے تحت مساجد اور گھروں پر مسلمانوں کو ناظرہ قرآن کی تعلیم کے لیے باقاعدہ اجازت لینی ہوگی۔ کوئی خاتون اپنی دکان یا کاروبار کی جگہ پر اسکارف نہیں اوڑھ سکتی، اسی طرح مسلم کمیونٹی کلب کے تالابوں پر خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ وقت مقرر کرنے پر بھی پابندی ہوگی۔ ان تمام کاموں کی خلاف ورزی پر کئی سال قید اور ہزاروں یورو جرمانے کی سزا ہوسکتی ہے۔ فرانس میں معاملہ نفرت کا ہے۔ وہ مسلمانوں کے عقائد اور ثقافت کے خلاف زہریلی مہم چلا رہے ہیں۔ عوامی سطح پر اس کے اثرات پڑ رہے ہیں۔ مسلمانوں کی تہذیب حتیٰ کہ عربی زبان کے خلاف نفرت پھیل رہی ہے۔ ایک مراکشی نژاد صحافی کہتی ہے کہ وہ چند دن قبل بس میں سفر کررہی تھی۔ اس کی ایک عرب سہیلی کا فون آیا جیسے ہی اس نے عربی میں اپنی سہیلی سے بات چیت شروع کی ساتھ بیٹھی فرانسیسی عورت بگڑ گئی۔ اس نے نفرت اور حقارت سے اس کو دہشت گرد اور پناہ گیر کہا۔ معاملہ اتنا بڑھا کہ بس کے ڈرائیور کو بس روک کر پولیس بلانی پڑی۔ پولیس نے بھی اس کو فرانسیسی زبان کے مقابلے میں عربی زبان استعمال کرنے کا مجرم ٹھیرایا۔
فرانس کے اہل سیاست کی نظر میں کیوں کہ وزیراعظم میکرون کی کشتی ڈوب رہی ہے، لہٰذا وہ اسے سہارا دینے کے لیے مسلمانوں کو قربانی کا بکرا بنا رہے ہیں۔ فرانسیسی صدر یہ سمجھ رہے ہیں کہ مہنگائی، بے روزگاری اور کورونا کے باعث کساد بازاری کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے مسلم مخالفت سے وہ عوامی حمایت حاصل کرسکتے ہیں۔ یہی سوچ ہمارے پڑوسی ملک کے وزیراعظم کی بھی ہے۔ جہاں حکومتی وزرا مسلمانوں کے خلاف انتہائی اشتعال انگیز نفرت پر مبنی بیانات دے رہے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر مسلمانوںکو تشدد کا سامنا ہے۔ اس صورت حال میں بھارت کے مسلمان خوف اور بے بسی کے دور میں جی رہے ہیں۔ وہ خود کو پہلے سے زیادہ غیر محفوظ محسوس کررہے ہیں۔ اسلاموفوبیا کا شکار مغرب مسلمانوں کے اس خوف کے ازالہ کے لیے لائحہ عمل پر بھی غور کرے۔ مسلمانوں نے تو اپنی مسجد کے دروازے کھول دیے ہیں۔ کیا مغرب ہندوئوں سے اپنی عبادت خانے کھولنے کے لیے کہنے کی ہمت رکھتا ہے؟ اور فرانس مسلمانوں کو اپنی ثقافت، مذہب اور زبان کے استعمال کی آزادی دینے پر آمادہ ہے۔ اگر نہیں تو مسلمانوں کے پاس اُن کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا آپشن موجود ہے۔ جو بذات خود ایک طاقتور ہتھیار ہے۔ بہرحال اگر اُن کے پاس مسلمانوں کے ساتھ نفرت کی آزادی ہے تو مسلمانوں کے پاس بھی اُن کی نفرت کو رد کرنے کی آزادی ہے۔