تبدیلی

591

تبدیلی کے لیے کچھ کرنا پڑتا ہے، دن ڈھلتا ہے اور رات پھیلتی ہے، صبح کی پو پھوٹتی ہے اور سورج کی کرن اندھیرے کے لحاظ سے اپنا منہ باہر نکالتی ہے، یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ کچھ نہ کیا جائے، ہاتھ پہ ہاتھ دھر کے کوئی بیٹھا رہے اور تبدیلی آجائے، ایسا نہیں ہوتا، 13 اگست 1947 کو بھی برصغیر میں سورج طلوع ہوا تھا مگر جو سورج 14 اگست 1947 کو طلوع ہوا، وہ تبدیلی کی پہلی کرن تھی جس کے پیچھے ایک جدوجہد تھی، تحریک پاکستان میں بہنے والا پاکیزہ لہو تھا، اب کہا جارہا ہے کہ پرانا نظام بہتر نہیں لہٰذا ہمیں صدارتی نظام کی جانب جانا ہوگا، یہ کوئی کہہ نہیں بلکہ یہ تاثر پھیلایا جارہا ہے کہ بس کوئی نیا نظام آیا ہی چاہتا ہے، ماضی میں ہم اس ملک میں بہت سے نظام دیکھ چکے ہیں، ماضی کہتا ہے کہ توسیع نہ ملتی تو ایوب خان بھی اقتدار میں نہ آتے، ایوب خان آئے تو پھر کیا کچھ گیا؟ اس پر زبان کھولی جائے یا نہ کھولی جائے، کچھ بھی نہ کہا جائے تب بھی لوگ سمجھ جائیں گے کہ اس دور میں ہم نے کیا کھویا؟ بس ہمیں یہ یاد ہے کہ ایوب خان آئے تو ملاوٹ والی مرچیں دکان داروں نے نالوں میں بہا دی تھیں، آج تو کہیں بھی ایسا نہیں ہورہا، وزیر اعظم نے کئی بار نوٹس لیا ہے، ذخیرہ اندوزی کے خلاف صدارتی آرڈیننس بھی لایا گیا مگر یہ خبر کہیں نہیں ملی کہ ملاوٹ شدہ اشیاء ضائع کر دی گئی ہیں یاذخیرہ اندوزی ختم ہوگئی بس ایک اور بات سننے کو ملتی ہے کہ سیاست دانوں نے اپنی بداعمالیوں سے پاکستان کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے، پارلیمانی نظام اپنے نتائج نہیں دے رہا اب کوئی نیا نظام ناگزیر ہو گیا ہے اور اہلِ وطن کو ایک صاف ستھرا اور پائیدار سیاسی نظام چاہیے۔
ذخیرہ اندوز اور اسمگلر نجانے کب سے ملکی معیشت پر جونکوں کی طرح چمٹے ہوئے ہیں، جب ایوب خان آئے تو ملک کا سیاسی میدان اجلے سیاسی رہنمائوں سے بھرا ہوا تھا، انہی میں ایک نام سید ابوالاعلیٰ مودودی کا تھا، ایوب خان آئے تو انہیں گہری تشویش ہوئی کہ اب مارشل لا کے نفاذ اور سیاسی جماعتوں پر پابندی سے پاکستان ناقابل تلافی سیاسی نقصان کی جانب بڑھنے لگا ہے پھر وہی ہوا کہ وہ سارے تنازعات ازسرِنو اُٹھ کھڑے ہوئے جو 1956 کے دستور میں طے ہو چکے تھے، ایوب خان نے بیس روز بعد صدر اسکندر مرزا کو ایوانِ صدر سے بے دخل کر کے صدارت کا منصب خود سنبھال لیا اور صدارتی طرزِ حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا خاموش کرانے کے لیے ’ایبڈو‘ لایا گیا جس کے تحت قدآور سیاسی شخصیتیں نااہل قرار پائیں اور بڑی تعداد میں اعلیٰ سرکاری افسر فارغ کر دیے گئے۔ ملک بھر میں اصلاحات کا ایک سیلاب اُمڈ آیا تمام اختیارات صدر کی ذات میں مرتکز ہوگئے، اختیارات سے بے دخلی عوام کے حصے میں آئی، سید ابوالاعلیٰ مودودی سے کہا گیا کہ عوامی دبائو بڑھائیں، لیکن مولانا نے تصادم کی راہ سے گریز کا فیصلہ کیا کہ سے بہت خون خرابہ ہو گا حسین شہید سہروردی کا فیصلہ کچھ مختلف تھا ان کی قیادت میں مشرقی پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے دستور کو مسترد کردیا اور چٹاگانگ سے تحریک شروع کردی۔ مولانا بہت مضطرب ہوئے اُنہوں نے فوری طور پر سہروردی کو پیغام بھیجا کہ جلد بازی سے کام نہ لیا جائے سہروردی سیانے سیاسی کارکن تھے ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر مولانا کا مشورہ قبول کر لیا اور وُہ کراچی چلے آئے۔ پھر سہروردی اور مولانا کی قیادت میں نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ قائم ہوا جس میں پاکستان کی تمام قابلِ ذکر جماعتوں کی نمائندگی تھی، اس کا پہلا اجلاس 27 فروری 1962 کو ہوا جس میں 30 کے لگ بھگ سیاست دان شریک ہوئے ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے بنیادی حقوق، مکمل جمہوریت اور سیاسی جماعتوں کی بحالی کا مطالبہ کیا گیا رد عمل میں 9 سیاسی لیڈروں کے خلاف بغاوت کے مقدمے قائم ہوئے اور میاں طفیل محمد، نوابزادہ نصراللہ خاں، محمود علی قصوری، محمود الحق عثمانی، عبدالحمید سندھی، عطاء اللہ مینگل، مولانا عبدالستار خاں نیازی، زیڈ ایچ لاری اور چودھری غلام محمد گرفتار ہوئے اور تحریکِ مزاحمت ذہنی، فکری رہنمائی دے گئی۔
آج بھی اگر فکری رہنمائی کی روشنی پھیلانی ہے تو پھر تصادم سے گریز کی راہ اختیار کرنا ہوگی، میاں طفیل محمد، نوابزادہ نصراللہ خاں، محمود علی قصوری، محمود الحق عثمانی، عبدالحمید سندھی، عطاء اللہ مینگل، مولانا عبدالستار خاں نیازی، زیڈ ایچ لاری اور چودھری غلام محمد بڑے نام تھے اور اجلے کردار کے لوگ تھے جنہوں نے ایک ایسی فکری رہنمائی کی بنیاد ڈالی جو آج بھی روشنی کا چراغ بن کر اجالا بکھیر رہا ہے بس ذرا غور کرنے کی ضرورت ہے۔