گروی اور دیوالیہ معیشت

473

آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کے قرض کی قسط کی منظوری کے لیے طے شدہ مذاکرات پھر موخر ہوگئے ہیں۔ وزیرخزانہ شوکت ترین کے مطابق واشنگٹن میں ہونے والے مذاکرات پاکستان کی درخواست پر آگے بڑھائے گئے ہیں۔ آئی ایم ایف کا جو اجلاس 28 جنوری کو ہونا تھا اب وہ پاکستان کی درخواست پر اب 2 فروری کو ہوگا۔ قرض کی قسط کی منظوری کے لیے آئی ایم ایف نے جن پیشگی اقدامات پر عمل درآمد کی شرط عائد کی ہے ان میں مختلف اشیا پر زرِتلافی کا خاتمہ، سیلز ٹیکس میں رعایت اور چھوٹ کا خاتمہ اور اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کے بل کی منظوری شامل ہے۔ آئی ایم ایف نے پابندی عائد کی ہے کہ حکومت اسٹیٹ بینک سے اپنی ضروریات کے لیے قرضہ نہیں لے سکتی۔ آئی ایم ایف کے حکم پر حکومت اسٹیٹ بینک ترمیمی بل ابھی تک منظور نہیں کراسکی ہے۔ اس لیے ابھی یہ بات واضح نہیں ہوسکی ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کے مقدر کا کیا فیصلہ کرے گا۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے کی سب سے بڑی وجہ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی ہے جس کی وجہ سے ملک کے ڈیفالٹ (دیوالیہ) ہونے کے خطرے کی تلوار پاکستانیوں کے سر پر لٹک رہی ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر کی ضرورت پوری کرنے کے لیے حکومت نے سعودی عرب سمیت کئی جگہ سے مہنگے اور سخت شرائط پر قرضے لیے ہیں اس کے باوجود زرمبادلہ کے ذخائر میں پھر کمی ہوجاتی ہے۔ اسٹیٹ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق زرمبادلہ کے ذخائر تقریباً 17 ارب ڈالر ہیں جو 20 دن قبل تقریباً 19 ارب ڈالر تھے۔ یہ منحوس چکر ختم ہونے میں نہیں آرہا ہے۔ ہماری معیشت مسلسل بجٹ خسارے، تجارتی خسارے اور زرمبادلہ کے ذخائر میں خسارے میں مبتلا چلی آرہی ہے، جس کی وجہ سے قرضوں کا حجم بڑھتا چلاجارہا ہے۔ اب تک موجودہ حکومت اس بات کی دعویدار ہے کہ پاکستان کی قرضوں کی زنجیر میں جکڑے جانے کی ذمے داری سابقہ حکومتوں پر عائد ہوتی ہے۔ اس بات میں وزن ضرور ہے لیکن 3 برس گزر جانے کے بعد اس دلیل کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی۔ عمران خان کا حکومت میں آنے کا تجربہ پہلی بار ہوا ہے، لیکن ان کی اپنی ٹیم کے ارکان حکومتوں میں نئے نہیں ہیں۔ یہ بات ان کے علم میں تھی سابقہ حکومتوں نے قرض کا بوجھ ناقابل برداشت بنادیا ہے۔ یہ ان کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ انہیں 70 برسوں کے ناقص اور تباہ کن فیصلوں کا علاج 5 سال میں کرنا ہے۔ اس کے لیے فوری اور طویل المیعاد دونوں اقدامات کرنے تھے اس کے لیے آزاد ذہن ماہرین معیشت کی ایک ٹیم کی ضرورت تھی۔ سابقہ حکومتوں اور روایتی سیاسی جماعتوں سے افراد رہنمائی دینے کے لیے تیار تھے۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان بھی ایسے نظام کے قیدی بن گئے جو کسی بھی حالت میں پاکستان کو آزاد ہونے نہیں دینا چاہتا۔ ان کی ساری کارکردگی محض تقریروں تک رہ گئی۔ انہوں نے یہ اعتراف کیا کہ وہ مجبوراً آئی ایم ایف کے پاس جارہے ہیں لیکن آئی ایم ایف سے مذاکرات کرنے کے لیے بھی آزاد ذہن افراد کی ٹیم بنانے کے بجائے آئی ایم ایف ہی سے ماہرین معیشت کی ٹیم بلالی۔ اس ٹیم کے نام اور چہرے ضرور پاکستانی ہیں لیکن ان کی وفاداری پاکستان سے نہیں عالمی سرمایہ دارانہ نظام سے ہے۔ جس کی وجہ سے باقی قرضے بھی مہنگی شرح اور سخت شرائط پر لیے گئے ہیں جس کے بعد یہ بات ناممکن ہوچکی ہے کہ عوامی فلاح کا معاشی نظام رائج ہوسکے گا۔ ابھی حال ہی میں سکوک بانڈ جاری کیے گئے ہیں، اس کے بارے میں بھی کہا جارہا ہے کہ سخت شرائط اور مہنگی شرح پر جاری کیے گئے ہیں نجانے اس سودی قرضے کو اسلامی نام کیوں دیا گیا ہے؟ ان قرضوں کے لیے قومی اثاثے بھی گروی رکھ دیے ہیں۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات سمیت قرضوں کے تمام معاملات کے لیے گفت و شنید کرنے والی افسر شاہی اور معاشی ماہرین کی ٹیم نااہل ثابت ہوچکی ہے اور پاکستان کے حق میں کوئی بھی مطالبہ منوانے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ پاکستانی معیشت کو کمزور کرنے کا سب سے بڑا سبب ڈالر کی شرح میں اضافہ ہے، سابق حکومتیں اس شرح کو 105 روپے تک پہنچا چکی تھیں جب کہ 80ء کی دہائی میں 16 روپے کے آس پاس تھی۔ یقینا سابقہ حکومتیں اور معاشی تنظیمیں اس قوم دشمنی کے ذمے دار ہیں۔ لیکن عمران خان کے تین برسوں میں تو اقتصادی تباہی کی رفتار تیز ہوگئی ہے اور صرف ڈالر 105 روپے سے 177 روپے تک پہنچ گیا ہے جس کی وجہ سے قرضوں کا حجم بڑھ گیا ہے۔ بجلی پیدا کرنے کے تمام معاہدے ڈالر میں کیے گئے ہیں یعنی روپے میں وصولی ہوگی اور ڈالر میں ادائیگی کی جائے گی۔ ڈالر کی شرح میں اضافہ ہی مہنگائی اور پیداواری لاگت میں اضافے کا سبب ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ متبادل سیاسی جماعتیں بھی محض نعرے بازی کررہی ہیں۔ ان کے پاس بھی معاشی تباہی کے اسباب سے نجات حاصل کرنے کے لیے کوئی منصوبہ اور حکمت عملی موجود نہیں ہے۔ قرضوں کی سرمایہ دارانہ معیشت نے جو دولت مند ترین طبقہ پیدا کردیا ہے اس میں اور سیاسی اور غیر سیاسی اشرافیہ دونوں شامل ہیں اور وہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے حصہ دار بن چکے ہیں مزاحمت کون کرے گا؟۔