بند سرکاری اسکول

250

صوبہ سندھ کے محکمہ تعلیم نے 4 ہزار سے زائد سرکاری اسکولوں کو بند کرنے کے بعد اسکولوں کے اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کی مکمل تفصیلات ضلعی تعلیمی افسران سے فوری طور پر طلب کرلی ہیں۔ سندھ میں ’’بھوت اسکولوں‘‘ کا انکشاف کوئی نئی خبر نہیں ہے۔ سندھ کی صوبائی اسمبلی میں کافی عرصے قبل ایسی رپورٹ پیش کی جاچکی ہیں جن کے مطابق کاغذات میں ایسے تین ہزار سے زائد اسکول موجود ہیں جہاں اساتذہ اور عملے کو تنخواہیں دی جاتی ہیں، لیکن عملاً تعلیم نہیں دی جاتی۔ موجودہ وزیرتعلیم صوبہ سندھ سید سردار علی شاہ کو بھی ایسی ہی رپورٹ پیش کی گئی جس کے بعد انہوں نے صوبے بھر میں 4 ہزار سے زائد اسکولوں کو بند کرنے کا اعلان کردیا۔ وزیرتعلیم نے ایسے اسکولوں کے اساتذہ اور عملے کی فہرست تیار کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ اس خبر سے صوبے میں سرکاری سطح پر تعلیم کی ابتر صورت حال کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ جو اسکول کام کررہے ہیں ان کی صورت حال کیا ہے اس کی تفصیلات بھی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں۔ اگر ہم سندھ کے دارالحکومت کراچی میں سرکاری شعبے میں اسکولوں اور کالجوں کی کارکردگی کا مشاہدہ کریں تو معلوم ہوگا کہ سندھ میں سرکاری سطح پر تعلیم تباہ ہوچکی ہے۔ سرکاری شعبے میں تعلیم کی بحالی کے لیے ایک بڑی مہم کی ضرورت ہے، اساتذہ کی تنظیموں کا فرض ہے کہ وہ سرکاری شعبے میں تعلیم کی بحالی کی تحریک چلائیں۔ غیر فعال اسکولوں کی بندش کے بجائے حکومت کو ان اسکولوں کو فعال کرنے کا اقدام کرنا چاہیے۔ تعلیم بنیادی مسئلہ ہے۔ نجی شعبے نے تعلیم کو خوشحال طبقے تک محدود کردیا ہے۔ سرکاری شعبے میں تعلیم کی بحالی کے بغیر اسکول نہ جانے والے بچوں کو اسکول بھیجنے کا مشن پورا نہیں ہوسکتا۔