ایم کیو ایم کارکن کی ہلاکت تشدد سے نہیں ہارٹ اٹیک سے ہوئی،سعید غنی

224
اسپیکر کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کاروائی ہونی چاہیئے، سعید غنی

وزیراطلاعات سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم کارکن کی ہلاکت پولیس تشدد سے نہیں ہارٹ اٹیک سے ہوئی اور کارکن اسلم خان کے پوسٹ مارٹم کی اجازت دی جائے۔

سعید غنی نے کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز ایم کیو ایم ریلی پر پولیس تشدد کا واقعہ نہیں ہونا چاہیے تھا، پی ایس ایل ٹیمیں ریڈزون میں ہوٹلز میں ٹھہری ہوئی ہیں، جنہوں نے ہوٹل سے نکل کر جانا تھا، پولیس نے مظاہرین کو روکنے اور سمجھانے کی کوشش کی، لیکن ایم کیو ایم کے رکن صوبائی اسمبلی نے پولیس اہلکاروں پر تشدد کیا، ایم پی اے صداقت حسین نے 4,5افراد کے ہمراہ پہلے پولیس پر ڈنڈے برسائے ، جس پر پولیس نے جواب دیا۔

سعید غنی نے بتایا کہ نہ چاہتے ہوئے بھی بین الا قوامی کھلاڑیوں کی وجہ سے پولیس کو ایم کیو ایم کے خلاف یہ ایکشن لینا پڑا، اگر کارروائی نہ کرتے تو خطرناک نتائج سامنے آسکتے تھے، وزیرداخلہ نے کراچی سمیت مختلف شہروں میں سکیورٹی تھریٹس سے آگاہ کیا، ملک میں دہشت گردی کے حملوں کا خطرہ ہے، کوئی بھی ناخوش گوار واقعہ ہوسکتا تھا، خواتین کا احترام سب پر لازم ہے ایم کیو ایم ہمشہ خواتین کو آگے کر دیتی ہے ، بھگدڑ مچنے سے خواتین زخمی ہوئیں۔

سعید غنی کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کارکن اسلم کی ہلاکت پولیس تشدد سے نہیں بلکہ دل کا دورہ پڑنے کے سبب ہوئی ، اسے طبیعت کی خرابی کے باعث فیڈرل بی ایریا کے ہارٹ اسپتال لایا گیا تھا، اگر پولیس تشدد سے عہدیدار اسلم صاحب زخمی ہوئے تو انہیں قریب این آئی سی وی ڈی یا جناح کیوں نہیں لے جایا گیا ، لواحقین سے درخواست ہے کہ کارکن اسلم خان کے پوسٹ مارٹم کی اجازت دی جائے، تاکہ سچائی سامنے آئے۔

وزیراطلاعات سندھ نے کہا کہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ تشدد کی وجہ سے ایک شخص ہلاک ہوا، جبکہ کل کسی سرکاری اسپتال میں ایسا زخمی نہیں آیا جس کی دوران علاج ہلاکت ہوئی، جناح میں ایم پی اے صداقت سمیت تین زخمی لائے گئے جنہیں طبی امداد دے کر فارغ کردیا گیا، ہمیں کسی اور اسپتال سے کسی زخمی کی کوئی رپورٹ نہیں ملی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ٹنڈو الہ یار واقعے کی بھی شفاف تحقیقات ہو رہی ہیں ، ایم کیو ایم ایسی ریلیوں کے ذریعے لسانی سیاست کو فروغ دینا چاہتی ہے ، وسیم اختر، خالد مقبول ، عامر خان اور آفاق احمد کے متنازعہ بیانات سے لسانیت پھیل رہی ہے ، بلدیاتی قانون کو بنیاد بناکر لوگوں کو اکسانا مناسب نہیں ، امید ہے کہ کراچی کے شہری ان کے باتوں میں نہیں آئیں گے۔