حوثیوں کے عربوں پر حملے، اسرائیل کی بالادستی

568

چند دن قبل یہ اطلاع آئی کہ 23مارچ 2022ء یوم ِ پاکستان کی تقریب کے مہمان ِ خصوصی محمد بن سلمان ہوں گے۔ قبل ازیں ہم نے اپنے انہی کالموں لکھا تھا کہ ایک ماہ قبل سعودی عرب نے پاکستان کو سخت شرائط پر قرض دیا ہے۔ لیکن اب سعودی عرب پاکستان کے قریب ہوتا جارہا ہے اور سعودی شاہی خاندان پاکستان کو اپنے دفاع کے لیے بہتر سمجھتا ہے۔ لیکن خبر ہے کہ پیر 24جنوری کو متحدہ عرب امارات کی وزارت دفاع کے بیان کے مطابق تباہ کیے گئے میزائلوں کے ٹکڑے ابوظبی میں گرے اس سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ تاہم حملے کے باعث ابوظبی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر ٹریفک کی آمد و رفت میں خلل پڑا ہے۔ اس طرح 4دنوں میں دوسری بار حملہ کیا گیا ہے۔ دوسری طرف سعودی خبر رساں ادارے ایس پی اے کا کہنا ہے کہ جنوب مغربی سعودی عرب میں ہونے والے حملے میں بعض ورکشاپس اور سویلین گاڑیوں کو نقصان پہنچا۔ یمن کے حوثی باغیوں نے دھمکی دی تھی کہ اگر متحدہ عرب امارات یمن کے خلاف جارحانہ اقدامات سے باز نہیں آیا تو مزید فضائی حملے کیے جا سکتے ہیں۔ اس کے فوری بعد عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں 5ڈالر کا اضافہ ہو چکا ہے اور اطلاعات یہ ہیں چند ہفتوں میں عالمی تیل مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ سے پاکستان میں پٹرول 200 روپے فی لیٹر ہونے کا خدشہ ہے۔ رائٹرز کے مطابق پیر کے روز متحدہ عرب امارات پر ہونے والے ناکام میزائل حملے کے بعد ابوظبی ائرپورٹ پر طیاروں کی آمد و رفت متاثر ہوئی۔ یاد رہے کہ 17 جنوری کو ہونے والے حملے کے بعد ائرپورٹ کے نزدیکی علاقے میں آگ لگ گئی تھی۔ اقوام متحدہ نے بھی حالیہ کشیدگی پر اپنی تشویش ظاہر کی ہے اور دونوں فریقین سے تحمل برتنے کا مطالبہ کیا ہے۔
حوثی باغیوں کے ترجمان ٹی وی چینل کے مطابق حوثیوں نے کہا ہے کہ وہ پیر کے روز متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں کیے گئے فوجی آپریشن کی تفصیلات جلد فراہم کریں گے۔ اتوار کی شب سعودی عرب کے ریاستی میڈیا نے دعویٰ کیا کہ حوثیوں کی جانب سے داغے گئے بلیسٹک میزائل سعودی عرب کے جنوبی علاقے میں گِرے جس میں دو غیرملکی زخمی ہوئے جبکہ صنعتی علاقے میں چند گاڑیوں اور ورک شاپس کو نقصان پہنچا۔ یمن میں سعودی عرب کی سربراہی میں لڑنے والے اتحاد نے کہا کہ دو غیر ملکیوں کو، جن میں سے ایک سوڈانی اور دوسرے بنگالی ہیں، معمولی چوٹیں آئی تھیں۔
امریکی صدرجو بائیڈن نے حلف اُٹھانے کے فوری بعد ہی فروری 2021ء میںاعلان کیا تھا کہ یمن کے خلاف چھے سال سے جاری جنگ میں اپنے اتحادیوں کی جانب سے جارحانہ کارروائیوں کے لیے اپنی حمایت ختم کر دی ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے خارجہ پالیسی کے بارے میں اپنے پہلے اہم خطاب میں کہا ہے کہ ’یمن میں جنگ کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ یمن جنگ میں ایک اندازے کے مطابق اب تک ایک لاکھ 40 ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔ امریکا نے سابقہ امریکی صدور اوباما اور ڈونلڈ ٹرمپ کے دور حکمرانی میں یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف سعودی عرب کے زیر قیادت اتحاد کی حمایت کی تھی۔ اس تنازع نے لاکھوں یمنی باشندوں کو فاقہ کشی کے دہانے پر لا کر کھڑا کر دیا تھا۔ اب امارات سمیت پوری دنیا امریکا سے یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ وہ حوثی باغیوں کو دوبارہ دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرے لیکن عالم ِ اسلام میں پراکسی وار کے ماہر صدر جو بائیڈن نے اب تک کوئی جواب نہیں دیا اس لیے کہ وہ اب بھی عالم عرب میں عرب بہار کا سماں پیدا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
یو اے ای پر گزشتہ ہفتے ہونے والے حملے کے بعد سعودی اتحاد نے یمن کے دارالحکومت صنعا میں باغیوں کے ٹھکانوں پر متعدد فضائی حملے کیے تھے جن میں ہلاکتوں کی اطلاعات بھی موصول ہوئی تھیں۔ سعودی اتحاد 2015 سے یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف لڑ رہا ہے۔ متحدہ عرب امارات اور سعودی شہروں پر حوثی حملوں کے بعد اس اتحاد نے حوثی اہداف پر فضائی حملے اور کارروائیاں بڑھا دی ہیں۔ سعودی عرب کے شمالی صنعا کے عارضی حراستی مرکز پر فضائی حملے میں کم از کم 60 افراد ہلاک ہوگئے تھے جبکہ جاری آپریشن میں حوثیوں کے زیر انتظام شہر میں 20 افراد مارے گئے تھے۔ سعودی اتحاد نے مارچ 2015 کے دوران یمن میں مداخلت کی تھی جب حوثیوں نے صنعا میں عالمی حمایت یافتہ حکومت کو اقتدار سے ہٹا دیا تھا۔ اس وقت سے حوثی باغیوں کا کہنا ہے کہ وہ کرپٹ نظام اور غیر ملکی مداخلت سے لڑ رہے ہیں۔ متحدہ عرب امارات نے 2019 سے یمن میں اپنی موجودگی کم کر دی تھی مگر حال ہی میں اس کی حمایت یافتہ فورسز کی یمن میں توانائی کے اہم مراکز پر حوثیوں سے جھڑپیں ہوئی ہیں۔
فروری 2021ء میں امریکی صدر کی جانب سے کیے گئے اعلان کے نتیجے میں امریکا نے جارحانہ کارروائیوں کی حمایت کرنا چھوڑنے کے ساتھ ساتھ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو نشانہ بنانے والے جدید اسلحہ کی فروخت بھی بند کر دی تھی۔ بائیڈن انتظامیہ نے پہلے ہی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو اسلحہ کی فروخت پر عارضی طور پر پابندی لگا دی تھی۔ یہ سلسلہ اب بھی کسی نہ کسی طرح جاری ہے۔ اس وقت ان اقدامات کو سابق صدر ٹرمپ کی مشرق وسطیٰ کے بارے میں پالیسیوں سے تبدیلی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے سعودی زیرقیادت اتحاد کی حمایت میں اضافہ کیا تھا۔ خطے میں امدادی تنظیموں نے اس اقدام پر تنقید کرتے ہوئے متنبہ کیا تھا کہ اس سے انہیں ان علاقوں میں کام کرنے سے روکا جا سکتا ہے، جہاں لاکھوں افراد کو خوراک کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے ایک ہفتے بعد ہی بائیڈن انتظامیہ نے حوثی باغیوں کو لین دین کی چند پابندیوں سے مستثنیٰ کردیا تھا۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ یمن میں دنیا کا بدترین انسانیت سوز بحران ہے جہاں 80 فی صد آبادی کو امداد یا تحفظ کی ضرورت ہے۔ اب جو بائیڈن کا وہ منصوبہ کامیاب ہو رہا ہے اور رفتہ رفتہ پورے عالم ِ عرب میں جنگ کی صورتحال کا سامنا ہے اور اس پوری صورتحال کا مقصد صرف اسرائیل کی عالم عرب میں برتری برقرار رکھنا ہے۔ اس منصوبے پر امریکا سنجیدگی سے کام کر رہا ہے۔