مسلمانوں کے ساتھ برطانویوں کا امتیازی سلوک

646

ایک برطانوی یونیورسٹی نے اسلامو فوبیا پر اپنی شائع شدہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ سب سے زیادہ مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ یونیورسٹی آف برمنگھم اور اعداد و شمار کا تجزیہ کرنے والی کمپنی ’’پوگووف‘‘ نے برطانیہ میں آباد مختلف قومیتوں اور مذاہب کے لوگوں کے ساتھ مقامی آبادی کے رویے کا جائزہ لیا ہے۔ اس سروے رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ برطانوی عوام کسی بھی دوسرے مذہب کے مقابلے میں اسلام کے بارے میں غلط اور سازشی خیالات رکھتے ہیں۔ اسلاموفوبیا کے بارے میں مطالعاتی جائزہ کرنے والی ٹیم کے سربراہ کے مطابق مسلمانوں کے خلاف امتیازی رویہ اختیار کرنے والوں میں بزرگ، مرد، یورپی یونین سے علاحدگی اختیار کرنے کے لیے ووٹ دینے والوں اور بورس جانسن کی جماعت کے حامی زیادہ تعداد میں ہیں۔ رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تعصب نمایاں ہے۔ نسل پرستی کے سب سے زیادہ شکار مسلمان بنتے ہیں۔ مسلم مخالف خیالات رکھنے والوں میں تعلیم یافتہ اور دولت مند برطانوی شامل ہیں۔ برطانیہ کے بارے میں جاری کردہ یہ رپورٹ انکشاف نہیں ہے۔ ویسے تو ناواقفیت اور لاعلمی عصبیت اور تعصب کا بڑا سبب ہوتی ہے، لیکن نشاۃ ثانیہ کے بعد لامذہب ہونے والا یورپ مسیحی پادریوں کی شروع کردہ صلیبی جنگ کی نفسیات اور اس کے اثرات سے آزاد نہیں ہوسکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سابق امریکی صدر بش نے افغانستان اور عراق پر حملے سے پہلے اسے صلیبی جنگ قرار دیا تھا۔ عہد جدید میں یورپ اور امریکا کی جامعات میں تحقیقی کام اور ذرائع ابلاغ میں اسلام کے خلاف تعصب بڑھایاگیا ہے۔ عصر حاضر میں سفر کی سہولتوں میں اضافے اور دنیا کے عالمی گائوں بننے کے بعد سفید فام یورپی و امریکی باشندوں کا مسلمانوں سے ربط ضبط بڑھا ہے۔ یہ ربط ضبط اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تعصب کے خاتمے کا سبب بننا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوسکا ہے۔ یورپ اور امریکا کے محققین جو دوسروں کی کمزوریوں پر گہری نظر رکھتے ہیں اور اپنی قوم کی کمزوریوں کو بیان کرنے سے گریز کرتے ہیں، جس نے یورپ کے باشندوں کے تکبر میں اضافہ کیا ہے اور مغرب کی اسلاموفوبیا کی لہر عالمی انسانی برادری بننے کے راستے میں رکاوٹ بن گئی ہے۔ اس کے باوجود یونیورسٹی آف برمنگھم کے ایک مطالعاتی جائزے میں اس بات کو تسلیم کرلیا گیا ہے کہ انسانیت کے علم بردار کیسے انسان دشمن جذبات پروان چڑھاتے ہیں۔ یہ صورت حال یورپ میں آباد مسلمانوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ یہ رپورٹ اس ملک سے آئی ہے جس کا تاثر دیگر یورپی ملکوں سے مختلف ہے۔ مسلمانوں کو مستقبل کے حوالے سے خصوصی تیاری کی ضرورت ہے۔