بھارتی یوم جمہوریہ اور پاکستان زندہ باد کے نعرے

842

بھارتی یوم جمہوریت پر روایت رہی ہے کہ وہاں حکومت کے چہرے سے نقاب الٹایا جاتا ہے اور دنیا بھر میں کشمیری اور مسلمان اس کے خلاف مظاہرے کرتے ہیں دو سال پہلے تو دو دن پہلے دہلی میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگ گئے تھے رپورٹس کے مطابق خان مارکیٹ کے میٹرو اسٹیشن پر ایک گروپ پیدل اور چھوٹی بائیکس پر آیا اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا کر چلا گیا۔ اس گروپ میں لڑکیاں بھی شامل تھیں اس کے بعد پولیس میں کھلبلی مچ گئی جو لکیر پیٹنے موقع پر پہنچی تو وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ بعدازاں پولیس نے 6 افراد کو گرفتار کرلیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ گرفتار افراد میں تین لڑکیاں بھی شامل ہیں۔ پولیس نے ان کے گھر والوں سے بھی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
بھارت میں 26 جنوری کو یوم جمہوریہ منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر کشمیری ہمیشہ سے یوم سیاہ مناتے چلے آئے ہیں۔ بھارت خود کو سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولر ریاست باور کراتا چلا آرہا ہے۔ بھارت میں مروجہ جمہوریت اس کے ماتھے کا کلنک بن گئی اور سیکولرازم دفن ہو چکا ہے۔ شدت پسندی ہر دور میں کسی نہ کسی صورت میں جاری رہی اور اب تو مودی نے بھارت کو مکمل طور پر ہندو شدت پسند ریاست بنا دیا ہے۔ جہاں اقلیتیں بدترین حالات سے دوچار ہیں اور اقلیتوں کے ساتھ سوقیانہ سلوک حکومت کی سرپرستی میں ہوتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں تو درندگی انتہائوں کو پہنچ چکی ہے۔ 5 اگست 2019ء کے بہیمانہ اقدامات کے باعث انسانی المیہ بدترین شکل اختیار کر چکا ہے۔ ڈیڑھ سال سے کشمیریوں کو سخت پابندیوں کا سامنا ہے۔ تاریخ میں اس قدر طویل عرصے تک کبھی کرفیو نافذ نہیں کیا گیا۔ انسانی حقوق کی پامالی پہلے بھی کم نہیں تھی‘ لیکن بھارت تو اس کی حدیں عبور کر چکا ہے۔
حسب سابق آج بھارت کے یوم جمہوریہ پر آزاد اور مقبوضہ کشمیر میں یوم سیاہ منایا جائے گا۔ اس موقع پر مقبوضہ وادی میں مکمل ہڑتال ہوگی۔ بھارت کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے کے لیے کشمیری دنیا میں جہاں کہیں بھی ہیں‘ ریلیاں نکالیں گے‘ کانفرنسیں کریں گے اور پاکستانی کشمیریوں کے شانہ بشانہ ہوں گے۔ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ جس طرح کا سلوک روا رکھا جاتا ہے اس کا اظہار عموماً ہوتا رہتا ہے تاہم بھارت کے یوم جمہوریہ‘ یوم آزادی اور دیگر خصوصی ایام پر زیرعتاب لوگ زیادہ شدت کے ساتھ حکومت کے متعصبانہ رویوں کو دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بھارت میں پاکستان کے پرچم لہرانے، پاکستان کے حق میں نعرے لگانے کا مقصد دنیا کے سامنے اقلیتوں کے ساتھ سلوک کا ایک طرح سے موازنہ بھی ہوتا ہے۔ بھارت میں کئی بار پاکستان کا پرچم لہرانے اور زندہ باد کے نعرے لگانے کے واقعات ہو چکے ہیں۔ دو سال قبل شاہجہاں کی برسی کے موقع پر نوجوانوں کے ایک گروپ نے تاج محل میں داخل ہو کر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے تھے۔ ایسا کرنے والوں کے ساتھ بھارتی حکومت سفاکانہ سلوک کرتی ہے۔ اگر لوگ ظلم اور جبر سے ایسے احتجاج سے باز آسکتے تو بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں فوج کی تعداد نو لاکھ اور اسے مہلک اسلحہ سے مسلح کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔
بھارت میں شدت پسند ہندوئوں کے سوا نچلی ذات کے ہندوئوں سمیت کوئی بھی اقلیت محفوظ نہیں ہے۔ مسلمان خصوصی طور پر ’’مودی ازم‘‘ کے نشانے پر ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں جس طرح کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں اور سکھوں کے ساتھ جو کچھ کیا گیا یہ ہولوکاسٹ ہی کی ایک قسم ہے۔ مودی سرکار کے ایسے طرز انتظام اور اقلیتوں سے انتقام کو اسی لیے نازی ازم سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ سکھ گولڈن ٹیمپل پر یلغار کا غم کبھی نہیں بھلا سکتے۔ اب پھر سکھوں کو متنازع زرعی قوانین کے تحت زیرعتاب لایا جا رہا ہے جس پر وہ بپھرے ہوئے ہیں مگر مودی حکومت قوانین پر نظرثانی کرنے پر تیار نہیں ہے۔ آج بھارت کے یوم جمہوریہ پر سکھ مظاہرین دہلی کی طرف مارچ کر رہے ہیں۔ شدت پسند ہندوئوں کی طرف سے مسیحیوں، مسلمانوں اور سکھوں کی عبادت گاہوں کو گرانے اور جلانے کا سلسلہ عرصہ سے جاری ہے۔ بابری مسجد کو گرا کر مندر تعمیر کیا جارہا ہے۔ اس پر سب سے بڑی اقلیت کا مشتعل ہونا فطری امر ہے۔ آل انڈیا یونائیٹڈ فرنٹ کے سربراہ بدرالدین کی طرف سے انکشاف کیا گیا تھا ہے کہ آر ایس ایس کے غنڈوں کی نظریں مزید تین ہزار سے زائد مساجد پر ہیں۔ اس کے بعد مسلمانوں کا مزید غضب ناک ہونا نوشتہ دیوار ہے۔
اقلیتوں کے ساتھ سلوک کی بات کی جاتی ہے تو کورونا کے شروع میں مسلمانوں کو اس کے پھیلائو کا ذمے دار قرار دیا گیا۔ مسلمانوں پر کورونا کے علاج کے دروازے بند اور کئی کو کورونا میں مبتلا ہونے کے شبہ میں تشدد کرکے مار دیا گیا۔ گزشتہ سال دہلی میں مسلمانوں کے گھروں اور ان کی املاک کو جلا دیا گیا اور یہ سب کچھ مودی سرکار کے ایما پر شہر کے باہر سے لوگوں کو لا کر کرایا گیا۔ مودی فطرتاً سفاک شخص ہے۔ گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کو اسی کے حکم پر اس کی وزارت اعلیٰ کے دوران جلا کر شہید کردیا گیا تھا۔ ظالم حکومت کے خلاف آوازیں بھارت کے اندر سے بھی اٹھ رہی ہیں۔ عوام حکومت سے مطمئن اور شاد کام ہوں تو خصوصی ایام کے مواقع پر اپنے مثبت جذبات کا اظہار کرتے ہیں‘ جشن مناتے ہیں جبکہ حکومت کیخلاف نکل کر کھڑے ہو جانا اور نعرے بازی اپنے خلاف ریاست کے معاندانہ رویوں کا اظہار ہے۔ عالمی برادری کو ریاستی سطح پر اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے گئے بغض و عناد پر مبنی سلوک کا نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔ بھارت راہ راست پر نہیں آتا تو پابندیوں کے آپشن سے بھی گریز نہ کیا جائے۔