حافظ نعیم نے چال بدل دی تو سندھ حکومت کو گھر جانا پڑیگا

444

کراچی (تجزیہ: سید و زیرعلی  قادری) جماعت اسلامی کراچی کے تحت کالے قانون کے خلاف احتجاجی دھرنے کو 26روز و شب ہوگئے جس کو جمع کیا جائے تو 52کا ہندسہ بنتا ہے جو تاش کے پتے کے لیے مشہور ہے۔ حکومت سندھ نے اگر ہوش کے ناخن نہیں لیے اور اپنی ہٹ دھرمی برقرار رکھی تو پھر امیر جماعت کراچی نعیم الرحمن یقینا ایکا (ترپ کی چال) چل کر کھیل ہی پلٹ دیں گے جس کے نتیجے میں پی پی کی صوبائی حکومت اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے گی۔ عقلمندی کا تقاضا یہی ہے کہ فوری طور پر کالے قانون کو دفن کرکے شفاف بلدیاتی نظام کو نافذ کیا جائے ۔ دراصل جماعت اسلامی کراچی کا دھرنا اصولوں کی بنیاد پر ہے جبکہ سندھ حکومت کے وزرا مسلسل عوام میں کنفیوژن پیدا کررہے ہیں۔ انہیں تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے کہ جس تحریک میں علما ، اساتذہ، دانشور اور سب سے بڑھ کر قربانی کے جذبے سے سرشار کارکن شامل ہوں وہ ضرور کامیاب ہوتی ہے۔ کراچی سمیت صوبہ سندھ کے باشندے جماعت اسلامی کے امیرحافظ نعیم الرحمن کی قائدانہ صلاحیتوں کے معترف تو ہو ہی رہے ہیں اطلاعات ہیں کہ اس دھرنے کی بازگشت ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں بھی سنائی دے رہی ہے اور اس کی روشنی میں وفاق کی حمایت یافتہ صوبائی حکومتیں ہلتی نظر آرہی ہیں جس کی ایک جھلک حالیہ بلدیاتی انتخابات ہیں جس میں پی ٹی آئی کو ہزیمت کا سامنا رہا۔ اس جاری دھرنے کو تقریباً 4ہفتے یعنی ایک ماہ کے قریب ہونے کو ہے اور جتنے دن گزر رہے ہیں اس کی مقبولیت میں اضافے کے ساتھ عوام کی دلچسپی بھی بڑھ رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق اس صورتحال پر غیر ملکی سفارتکار بھی نظر رکھے ہوئے ہیں اور ایسے ممالک جن کے قونصلیٹ جنرل پاکستان کی شہریت رکھتے ہیں اور زیادہ تر کا تعلق کاروباری و صنعتی شعبے سے ہے ان سے برابر رابطے میں ہیں۔ بہرحال عقلمندی کا تقاضا یہی ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ وقت کی نزاکت کا احساس کریں اور جو کمیٹی مذاکرات کے لیے بنائی گئی ہے اس کا جائزہ لے کر فی الفور اسمبلی میں منظور کیا جانے والا کالا بلدیاتی قانون جس میں 3کروڑ آبادی والے شہر کے بسنے والوں کو غلام بنانے کی سازش کی گئی ہے واپس لیں اور کراچی سمیت صوبے میں حالات کو نارمل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ یاد رہے کہ کراچی میں پاکستان سپر لیگ کا میلہ کل سے سجنے جارہا ہے جس میں غیر ملکی کھلاڑی بھی شامل ہیں کہیں کسی بدنظمی اور صوبائی حکومت کی بدنامی کا سبب نہ بنے۔