صدارتی نظام کی بحث

796

پاکستان کے قیام کو پون صدی ہوگئی، سالِ رواں میں وطنِ عزیز کی ڈائمنڈ جوبلی تقریبات منانے کی تیاری ہورہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اس سلسلے میں ایک جائزہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ تقریبات میں قائداعظم اور علامہ اقبال کے نظریات کو اُجاگر کیا جائے۔ ان تقریبات کا مرکزی پیغام اتحاد، انصاف اور اپنی آزادی پر فخر ہونا چاہیے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ان تقریبات کے ذریعے دُنیا کو یہ پیغام ملنا چاہیے کہ پاکستانی قوم متحد اور مضبوط ہے۔ اس خطاب کے ساتھ ہی ملک میں صدارتی نظام کی بحث پھر شروع ہوگئی ہے جو ہر دو چار سال کے بعد اُس وقت شروع ہوتی ہے جب حکمرانوں کو پارلیمانی نظام میں اپنی حکمرانی بے لطف محسوس ہونے لگتی ہے اور انہیں یوں لگتا ہے کہ وہ اس نظام میں بے بس ہوکر رہ گئے ہیں۔ وہ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں کر نہیں پارہے۔ ایک ٹی وی چینل پر جو حکومت کا حامی سمجھا جاتا ہے، صدارتی نظام کے حق میں اشتہار چلا گیا ہے جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس بحث کے مّحرک کون لوگ ہیں اور وہ کیا چاہتے ہیں۔ ویسے بھی عمران خان چین کے آمرانہ وحدانی نظام کے بارے میں اپنی پسندیدگی کا کھل کر اظہار کرچکے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کے پاس بھی ویسے ہی آمرانہ اختیارات ہوں جیسے چینی صدر کے پاس ہیں۔ انہوں نے کرپٹ عناصر کے احتساب میں ناکامی کا اعتراف بھی کیا ہے اور اس کی وجہ یہی بتائی ہے کہ وہ اختیارات سے محروم ہیں۔ صدارتی نظام کی بحث ایک ایسے موقع پر شروع کی گئی ہے جب حکومت، پاکستان کی آزادی کی ڈائمنڈ جوبلی تقریبات منانے کی منصوبہ بندی کررہی ہے اور عمران خان کا کہنا ہے کہ اِن تقریبات سے دُنیا کو یہ پیغام ملنا چاہیے کہ پاکستانی قوم متحد اور مضبوط ہے اور وہ اتحاد، انصاف اور اپنی آزادی پر فخر کرتی ہے لیکن صدارتی نظام کی بحث تو قوم کو تقسیم کردے گی اور ملک میں ایسا انتشار برپا ہوگا کہ ڈائمنڈ جوبلی تقریبات دھری کی دھری رہ جائیں گی۔
سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ جمہوری پارلیمانی نظام ناکام ہوگیا ہے اور کیا پاکستان میں صدارتی نظام کو نہیں آزمایا گیا؟۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں کوئی نظام بھی بُرا نہیں ہے۔ اس کو چلانے والے بُرے ہوتے ہیں جو اسے بدنام کردیتے ہیں۔ دنیا میں ایک طویل عرصے تک مطلق العنان بادشاہت بھی رہی ہے لیکن جن بادشاہوں نے اپنی سلطنت میں عدل و انصاف قائم کیا، اپنی رعایا کو امن و سکون اور تحفظ دیا اور اس کی بنیادی ضرورتیں پوری کیں ان کے نام آج بھی تاریخ میں سنہری حروف میں جگمگا رہے ہیں۔ زمانے نے ارتقائی منازل طے کرکے جمہوری نظام کو اپنایا اور عوام کو اپنے حکمران منتخب کرنے کا حق دیا تو اس نظام میں بھی اچھے اور بُرے حکمرانوں کی تمیز کی جاسکتی ہے۔ عوام نے تو اپنی دانست میں اچھے اور اہل حکمران منتخب کیے لیکن بعد میں وہ بُرے اور نااہل ثابت ہوئے۔ پوری دنیا اس تجربے سے گزری ہے اور پاکستان میں بارہا اس کا تجربہ ہوا ہے اور اب بھی ہورہا ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ موجودہ جمہوری پارلیمانی نظام ناکام ہوگیا ہے۔ ایک فرسودہ اور غیر حقیقی بات ہے۔ اب آتے ہیں صدارتی نظام کی طرف۔ کیا پاکستان میں صدارتی نظام کا تجربہ نہیں ہوا؟ قیام پاکستان کے بعد وطن عزیز جمہوری پارلیمانی نظام کے تجربے سے گزر رہا تھا۔ دستور ساز اسمبلی نے قرار داد مقاصد کی منظوری دے کر اس نظام کا رُخ بھی متعین کردیا تھا اور اس کے خدوخال بھی واضح کردیے تھے۔ چناں
چہ اس کی روشنی میں 1956ء میں دستور سازی کا عمل کرلیا گیا اور ایک ایسا دستور تیار کیا گیا جو اپنی روح کے اعتبار سے اسلامی بھی تھا اور جمہوری و پارلیمانی بھی۔ 1956ء کے اس دستور میں پاکستان کے دونوں حصوں کو یکجا و متحد رکھنے کی اساس موجود تھی۔ اس دستور کے تحت ملک میں پہلے عام انتخابات ہونے والے تھے کہ انتخابات کے انعقاد سے تین ماہ پہلے ملک میں مارشل لا لگادیا گیا۔ 1956ء کا دستور معطل کردیا گیا، اسمبلیاں توڑ دی گئیں اور سیاسی جماعتوں پر پابندی لگادی گئی۔ کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد صدر کو بھی رخصت کردیا اور خود صدر بن بیٹھے۔ اس طرح اُس سیاسی عمل کو سبوتاژ کردیا گیا جو قیام پاکستان کے بعد گیارہ سال کے عرصے میں مکمل ہوا تھا اور جس کے تحت عام انتخابات کے ذریعے قوم اپنی منزل کی جانب پیش قدمی کرنے والی تھی۔ ملک میں کسی عوامی مینڈیٹ کے بغیر صدارتی نظام کے نفاذ سے مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان علٰیحدگی کی بنیاد پڑ گئی۔ صدارتی نظام ملک کے دونوں حصوں کو متحد رکھنے کی صلاحیت سے محروم تھا۔ چناں چہ صدر جنرل ایوب خان کا اقتدار جوں جوں طول کھینچتا گیا یہ خلیج بڑھتی گئی، یہاں تک کہ جنرل ایوب خان کی اقتدار سے سبکدوشی کے بعد دوسرا فوجی حکمران جنرل یحییٰ خان ملک کا چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور صدر بنا تو معاملات اتنے بگڑ گئے تھے کہ ملک کا متحد رہنا ممکن نہ رہا اور 1970ء کے انتخابات کے بعد ملک دو ٹکڑے ہوگیا۔ یہ ہے صدارتی نظام کا وہ کڑوا پھل جس کا ذائقہ قوم کو چکھنا پڑا۔
سقوطِ مشرقی پاکستان کے المیے کے بعد بھی جرنیلوں نے سبق نہیں سیکھا، ان کے اقتدار کی ہوس کلبلاتی رہی، جنرل ضیا الحق نے ملک کے سیاسی حالات سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے 1977ء میں تیسرا مارشل لا لگادیا اور ایک جعلی ریفرنڈم کے ذریعے ملک کے صدر بن بیٹھے۔ وہ آٹھ نو سال تک اس منصب پر فائز رہے اگر طیارے کا حادثہ پیش نہ آتا تو ان کا اقتدار مزید طول کھینچ سکتا تھا۔ ان کے صدارتی دور نے ملک کی سیاسی، سماجی اور اخلاقی بنیادیں کمزور کردیں۔ قوم کے اندر اتحاد و یک جہتی کا جذبہ ماند پڑ گیا۔ ملک میں کلاشنکوف کلچر اور ہیروئن کلچرکو فروغ حاصل ہوا اور اس کے نتیجے میں دہشت گردی کا سیلاب آگیا۔ جنرل پرویز مشرف نے ملک میں چوتھا مارشل لا لگایا اور ایک منتخب سول حکومت کا تختہ اُلٹ کر صدر بن گئے تو انہوں نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے امریکا کے آگے سرنڈر کرکے پاکستان کو امریکا کا غلام بنادیا۔ یہ غلامی بدستور قائم ہے اور پاکستان کو اس غلامی سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں سوجھ رہا۔
جن لوگوں نے موجودہ حالات میں صدارتی نظام کی بحث چھیڑی ہے آخر وہ اس سے کیا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں، کیا وہ موجودہ پارلیمانی نظام میں ناکام ہونے کے بعد صدارتی نظام کو آزمانا چاہتے ہیں؟ تو جیسا کہ ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ کوئی نظام بھی اپنی ہیئت میں بُرا نہیں ہوتا البتہ اس کو چلانے والے اہل یا نااہل، مخلص یا غیر مخلص ہوسکتے ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ اس ملک میں جو لوگ بھی برسراقتدار آئے ان میں سے بیش تر اپنے ذاتی مفادات کے اسیر رہے۔ انہوں نے ملک و قوم کا فائدہ دیکھنے کے بجائے اپنا ذاتی فائدہ دیکھا اور ملک کو مستحکم کرنے کے بجائے اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کی کوشش کی۔ یہی کچھ ماضی میں ہوتا رہا ہے اور یہی کچھ اب بھی ہورہا ہے۔ جب تک یہ صورت حال نہیں بدلتی اور قوم مخلص، دیانتدار اور اہل لوگوں کا انتخاب نہیں کرتی۔ نظام ہائے حکومت کی بحث ہی غلط ہے۔