گھر کا بھیدی

441

کہتے ہیں جو صاحب اختیار نادان دوستوں میں گھرا ہو دشمن اس کا گھرائو نہیں کرتے، وزیر اعظم عمران خان بھی نادان دوستوںکے گھرائو میں ہیں سو اپوزیشن ان کے خلاف عملی اقدامات کرنے کے بجائے پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہے، کیونکہ خان صاحب کے سر پر جو دست شفقت ہے اس نے انگارے بچھائے ہوئے ہیں، اس لیے حکومت کے خلاف شور شرابہ ضرور کرتی رہے گی، مگر اپنی توانائی کو اچھے مال کی طرح چھپا کر رکھا ہوا ہے، اگرچہ اپنی حکمت عملی میں کافی حد تک کامیاب بھی ہو رہی ہے لیکن یہ کامیابی دراصل اس کی مجبوری ہے۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق کہا کرتے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی ضرورت ہی نہیں اپنی نااہلی اور نالائقی کے بوجھ تلے سسک سسک کر مر جائے گی انکا تجزیہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنی اہمیت کا احساس بھی دلا رہا ہے، حکومت کی سسکیاں ساری دنیا سن رہی ہے مگر ان کے نادان دوست سسکیوں کو لذت اور انبساط کی انتہا قرار دے کر خان صاحب کو خوشی سے نہال کررہے ہیں بلکہ نونہال بنا رہے ہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے گھر کے بھیدی کی طرح خان صاحب کی لنکا ڈھانے کی کامیاب کوشش کی ہے، فرماتے ہیں جو ہاتھ عمران خان کے سر پر ہے نواز شریف چاہتے ہیں ان کے سر پر آجائے، مگر یہ ممکن نہیں کیونکہ وہ ہاتھ ان کے گلے پر آنے کے لیے بے تاب ہے گویا شیخ رشید نے اعتراف کر لیا ہے کہ خان صاحب الیکٹڈ نہیں سلیکٹڈ وزیر اعظم ہیں، اتنا کچھ کہہ کر بھی مطمئن نہیں ہوئے اور اپنے بیان میں چونگے کے طور پر قوم کو اس حقیقت سے آگاہ کر دیا کہ جب تک خلائی مخلوق کا دست شفقت ان کے سر پر ہے اپوزیشن عمران خان کی حکومت گرانے کی کوشش میں خود گرتی رہے گی، پانچ سالہ مدت عمران خان کی کٹ بک پر درج ہے۔ مگر یہ کوئی انکشاف نہیں کیونکہ قوم کو پہلے دن ہی سے اس کا ادراک ہے، سو اپوزیشن جانتی ہے کہ عوام سڑکوں پر آکر اپنا وقت ضائع نہیں کریں گے البتہ خان صاحب کا بلڈ پریشر بڑھانے کے سوا کوئی اور پریشر نہیں ڈالے گی۔
چودھری فواد کا کہنا ہے کہ سانحہ مری کے حوالے سے بارہ گھنٹوں میں قوم نے بارہ لاکھ گالیوں سے نوازا ہے، جو اس حقیقت کا واضع ثبوت یہ ہے کہ قوم کے پاس پیسے کی کمی نہیں، جن لوگوں کے پاس اسمارٹ فون ہوں انٹر نیٹ ہو انہیں غریب کہنا عقل دشمنی کی انتہا ہے۔ چودھری صاحب! یہ عمل قوم کی خوشحالی کی دلیل ہو یا نہ لیکن آپ کی بے حسی اور عقل و دانش سے عاری ہونے کا ناقابل تردید ثبوت ہے، سانحہ مری پر پوری قوم سوگ منا رہی تھی حکومت کی نااہلی کا ماتم کررہی تھی اور آپ لطف اندوز ہو رہے تھے، آپ کی لطف اندوزی کو بے حسی قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ یہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے۔ چودھری صاحب! جہاں تک آپ کو گالیوں سے نوازنے کا تعلق ہے تو کوئی غریب آدمی آپ کو گالیاں دینے کا صرف سوچ سکتا ہے کیونکہ اس کے لبوں پر شیرینی نہیں غربت کا ٹیپ لگا ہوتا ہے اور ٹیپ زدہ ہونٹ بول نہیں سکتے، آپ کو گالیاں دینے والے صاحب حیثیت اور بااختیار طبقے سے ہو سکتے ہیں، بلکہ یقینا گالیاں دینے والے بہت بااثر ہوںگے ورنہ کوئی غربت زدہ شخص یہ جرأت ہی نہیں کر سکتا۔
کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ چند نوجوان سیاست دانوں کے آباء و اجداد پر گفتگو کررہے تھے ایک نوجوان نے کہا کہ چودھری فواد کے بڑے دیگ پکایا کرتے تھے آج وہ ہمارا حکمران بنا بیٹھا ہے، ایک نوجوان نے بڑھ کر اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور کہا تو اپنی حیثیت دیکھ تیری یہ اوقات نہیں کہ چودھری فواد کے بزرگوں کے کو چڑھویا کہے، چودھری فواد کے کسی چاہنے والے نے یہ سن لیا تو تیری دیگ پکنے میں دیر نہ لگے گی یہ قصہ سنانے پر ہم معذرت خواں ہیں، صرف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ آپ لوگوں کے مخالفین ایک دوسرے پر ایک دوسرے پر ایسے گھٹیا الزامات لگاتے رہتے ہیں، مگر کوئی غریب آدمی اس معاملے میں منہ کھولنا نہیں چاہے گا، کیونکہ وہ ناقابل برداشت مشکلات میں مبتلا ہونا نہیں چاہتا اس تناظر میں قوم کی خوشحالی کا دعویٰ بے معنی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان اور ان کے وزیروں مشیروں کی نظر میں پاکستان دنیا کا سستا ترین ملک ہے وہ ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں مہنگائی ہے تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑی چار روٹیوں کے بجائے دو روٹیاں کھانے سے آدمی مر نہیں جاتا، جسے زندگی عزیز ہو وہ کم سے کم کھائے، کم کھانے سے معدے کے امراض نہیں ہوتے نہ پیٹ بڑھتا ہے، نہ جسم پر چربی چڑھتی ہے، ایسے دل آزار بیان دینے والوں کو اپنے دماغ کا علاج کرانا چاہیے، خان صاحب کے ترجمان ٹی وی چینلز پر آکر اکثر قوم کو باور کراتے رہتے ہیں کہ تحریک انصاف کا دور حکومت سابقہ حکومتوں سے بہت بہتر ہے پاکستان کے ہر شعبے نے ترقی کے ریکارڈ قائم کیے ہیں، گندم چاول اورکپاس کی فصلوں نے قومی خزانے میں بے پناہ اضافہ کیا ہے مگر وہ یہ سوچنا گوارا نہیں کرتے کہ عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ قومی خزانے میں کتنی دولت جمع ہے، گندم چاول اور کپاس کی فصلوں کی پیداوار میں کتنا اضافہ ہوا ہے وہ صرف اور صرف اپنی جیب کو دیکھتے ہیں ان کی جیب خالی ہو تو سمجھتے ہیں کہ حکمران طبقے کا دماغ خالی ہے، جس فضل میں جتنا اضافہ ہوتا ہے اس کی قیمت میں اتنی ہی کمی آتی ہے، دور اندیشی حکمرانوں کی اہلیت کا معیار سمجھا جاتا ہے، عوام تو یہ سوچ سوچ کر نڈھال ہو رہے ہیں کہ اناج کی پیداوار میں کثرت و بہتات ہوئی ہے تو مہنگائی کا کیا جواز ہے یہ تو سراسر ایک سازش کے تحت ملکی معیشت کو تباہ کرنے کا حصہ معلوم ہوتی ہے۔
وزیر داخلہ شیخ رشید جب بھی بولتے ہیں گلہ پھاڑ کر بولتے ہیں، اگر موصوف یہی ڈیوٹی سر انجام دیتے رہے تو کفن پھاڑ کر بولنے کا مطلب سب کی سمجھ میں آجائے گا موصوف اتنا بولتے ہیں کہ یہ طے کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ ان کا تازہ بیان کون سا ہے اور باسی بیان کیا ہے، عمران خان کے پانچ سال تک برسر اقتدار رہنے کا بیان اتنا پرانا ہے جو اس حقیقت کا عکاس ہے کہ خان صاحب نے وزارت عظمیٰ پانچ سال کے لیے ٹھیکے پر لے رکھی ہے لیکن قوم اس حقیقت کا ادراک کر چکی ہے کہ پانچ برس کا عطیہ ایک آزمائشی مدت تھی جس میں خان صاحب بری طرح فیل ہو چکے ہیں، شیخ جی نے ارشاد فرمایا ہے کہ عمران خان آئی ایم ایف کے پاس جائیں تو حرام ہے دوسرے جائیں تو حلال ہے، شیخ جی بڑے باتونی ہیں، مگر ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ دوسروں کا آئی ایم ایف جانا ’’مرتا کیا نا کرتا‘‘ کے مصداق ہوتا ہے مرنا برحق ہے اور حق ہمیشہ حلال ہوتا ہے۔ مگر خود کشی حرام ہے غالباً شیخ جی کو یاد نہیں رہا کہ خان صاحب فرمایا کرتے تھے کہ آئی ایم ایف کے در پر سرنگوں ہونے کی ضرورت پڑی تو خود کشی کر لوں گا، خان صاحب خودکشی کا ارتکاب کر چکے ہیں، جسمانی نہ سہی روحانی طور پر مر چکے ہیں۔