بھارت اور کشمیر میں مسلم نسل کشی کا خطرہ

378

دنیا کے مختلف علاقوں میں نسل کشی کے خطرات کا ادراک کرنے والے ادارے جنیو سائیڈ واچ کے بانی ڈاکٹر گریکوری اسٹینٹسن نے انڈین امریکن مسلم کونسل کی جانب سے منعقدہ کال جینو سائیڈ آف انڈین مسلمز سے کانگریشنل بریفنگ کے دوران کچھ ٹھوس وجوہات کی بنیاد پر بھارت اور کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی کے حوالے سے الرٹ جاری کیا تھا۔ جب گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا تو مودی گجرات کا وزیر اعلیٰ تھا اور اس نے مسلمانوں کو بچانے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ مودی نے اپنی سیاست کو وسیع کرنے کے لیے مسلم مخالف اور اسلاموفوبیا کی بیان بازی کا استعمال کیا۔ اب بھی مودی دو طریقوں سے یہی مشق دہرا سکتا ہے۔ ایک کشمیر کی 2019 میں خصوصی حیثیت ختم کی گئی۔ جس کا مقصد وادی کو جہاں اس و قت مسلمانوں کی اکثریت ہے ہندو اکثریتی ریاست بنانا تھا۔ دوسرا یہ کہ بھارت میں شہریت ترمیمی قانون لایا گیا جس کے تحت افغانستان، پاکستان اور بنگلا دیش سے نقل مکانی کرنے والوں کو شہریت دی گئی جبکہ صرف ایک گروپ یعنی مسلمانوں کو اس سے باہر رکھا گیا۔ اس قانون کا مقصد بنگلا دیش سے نقل مکانی کرکے آسام میں بسنے والے تیس لاکھ کے قریب مسلمانوں کو نشانہ بنانا تھا۔ میانمر کی حکومت نے بھی پہلے قانون سازی کے ذریعے مسلمانوں کی شہریت ختم کی اس کے بعد مسلمانوں کو تشدد اور نسل کشی کے ذریعے ملک بدر کر دیا۔ جنیو سائیڈ واچ کے بانی ڈاکٹر گریکوری نے 1994میں روانڈا میں ہونے والی نسل کشی کی پیش گوئی بہت پہلے کی تھی۔ جنیو سائیڈ واچ کی بنیاد 1999 میں رکھی گئی تھی اور اس کا مقصد دنیا بھر میں نسل کشی کے واقعات اور مہمات کو روکنا تھا۔ ڈاکٹر گریکوری کی طرف سے بھارت اور مسلمانوں کی نسل کشی کے خطرات کی موجودگی کا اقرار دنیا کے الارم ہے۔
نسل کشی کے واقعات اچانک نہیں رونما نہیں ہوتے کیونکہ آن واحد میں انسانی آنکھ میں یوں خون نہیں اُترتا کہ وہ اپنے ہمسایوں، جاننے والوں، محسنوں سے نظریں پھیر کر نیزے اور چھرے لے کر ان پر دوڑ پڑیں۔ حقیقت میں یہ نفرت کا ایک بیج ہوتا ہے جسے ایک دن ڈالا جاتا ہے پھر وہ زمین کی تہہ میں نمو پاتا چلا جاتا ہے یہاں تک جب یہ درخت بنتا ہے تو اس وقت نفرت ایک رویے سے بڑھ کر ایک جنون اور خون بہانا ایک شوق اور مشغلہ بن چکا ہوتا ہے۔ پھر انسان اپنے اصل مقام انسانیت سے نیچے گر چوپائے اور وحشی کی قبا اور کھال پہن کر اپنے ہمسایوں، جاننے والوں، ایک کھیل کے میدان میں کھیلنے والوں اور ایک دفتر میں کام کرنے والوں کو بھی نہیں بخشتا۔ اس وقت انسان کا مذہب بھی نفرت ہوتی ہے اور قومیت بھی نفرت ہوتی ہے۔ اس وحشت کے پیچھے برسوں کی ذہن سازی ہوتی ہے۔ پھر ریاست بھی اس جنونیت کی معاون بن جائے تو وحشت کا رقص اپنا بھرپور رنگ جماتا ہے۔ گجرات میں یہی ہوا۔ وہاں نریندر مودی کو اپنی سیاسی بنیاد مضبوط کرنے کی ضرورت تھی اس کے لیے مودی نے پہلے سے مسلمان مخالف ہندوتوا ذہنیت کو ہوا دینا اور سرپرستی کرنا شروع کی۔ یہاں تک کہ گجرات میں پانچ ہزار افراد کو بے دردی سے قتل کیا گیا جن میں ایک رکن پارلیمنٹ بھی شامل تھے۔ نریندرمودی نے اس رقص ابلیس کا تماشا بہت سنگ دلی اور شقاوت قلبی کے ساتھ دیکھا۔ اب یہی مودی بھارت کا وزیر اعظم ہے۔ مودی نے مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کا ہر حربہ اپنائے رکھا ہے۔ پہلا وار کشمیریوں پر کیا گیا اور یہ دنیا کے لٹمس ٹیسٹ تھا کہ وہ بھارت کے اس قدم پر ردعمل ظاہر کرتی ہے یا خاموشی اختیار کرتی ہے۔ دنیا نے اس معاملے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کی۔ پانچ اگست کے فیصلے کے طویل المیعاد مقاصد اور اس کے پیچھے ذہن کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ دنیا کی اس بے حسی نے مودی کے حوصلے بڑھا دیا اس نے پورے بھارت کو ’’کشمیر‘‘ بنانے کا راستہ اختیار کیا۔
شہریت کا ترمیمی قانون متعارف کرانے کے ذریعے مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کا فیصلہ کیا گیا۔ کشمیر کے معاملے سے لاتعلقی اختیار کرنے والے بھارتی مسلمان راہنمائوں کی آنکھیں اس وقت کھلیں جب شہریت ترمیمی قانون کی دوربین میں انہیں اپنا مستقبل تاریک اور کربناک دکھائی دیا۔ مسلمانوں نے جا بجا احتجاج کیا۔ دہلی کے شاہین باغ میں خواتین نے احتجاجی کیمپ لگایا مگر مودی حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی اور ایک روز اس کیمپ پر انتہا پسندوں نے حملہ کیا۔ مسلمانوں کی املاک جلائی گئیں اور طاقت کے زور پر احتجاج ختم کر ایا گیا۔ گجرات کی طرح ان کارروائیوں میں بھی پولیس نے بلوائیوں کے خلاف کوئی قدم اُٹھانے کے بجائے تماشائی بننے کا فیصلہ کیا۔ کشمیر تو پہلے ہی بھارت کی مٹھی میں بند ہے اور پانچ اگست کے فیصلے کا واضح مقصد آبادی کا تناسب تبدیل کرنا ہے۔ آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کا میانمر اسٹائل اپنایا جاسکتا ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پورے عروج پر ہے۔ دھرم سنسد کے نام سے منعقدہ سیمینار میں تو مقررین نے لگی لپٹی رکھے بغیر بھارت کو مسلمانوں کا میانمر بنانے کی بات کی۔ اب جنیو سائیڈ واچ کے سربراہ نے ایک بار پھر خطرے کی گھنٹی بجائی ہے تو اس کے پیچھے وہ اسباب وعوامل ہیں جو ایسے واقعات کا سبب بنتے ہیں۔ عوامی ذہن نفرت سے بھر دیے گئے ہیں۔ انتظامیہ کے ذہن مسلمانوں کے خلاف اور فرقہ واریت سے لبریز ہیں۔ حکومت کا سربراہ پوری طرح اس رویے کی سرپرستی کر رہا ہے اور ریاست قوانین بنا کر اپنے ممکنہ ہدف کو پہلے ہی کمزور پوزیشن میں دھکیل چکی ہے۔ اس کے بعد بس نفرت کی ایک چنگاری اُڑنے کی دیر رہ جاتی ہے اور نسل کشی کی روح فرسا کہانیاں جنم لینا شروع ہوتی ہیں۔