توانائی میں اضافے کے بغیر ترقی ممکن ہے ؟

730

ء1958 میں ڈیموں کی تعمیر سے سستی بجلی ملی جس کوصنعتکارو ں اور اشرفیہ نے انتہائی بے دردی سے استعمال کیا اور اس ک نتیجہ یہ نکلا کہ اًب ہم مہنگے فیول سے بجلی پیدا کرنے پر مجبور ہیں جس سے ہماری پیداوار ی لاگت کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ گزشتہ صدی میں دریافت ہونے والی گیس ہماری 2080ء تک کی ضروریات کے لیے کافی تھی مگر ہم نے اسے 2015ء میں ہی ختم کر دیا اور گاڑیوں کے لیے بھی اس گیس کو استعمال کیا گیا یہ ایک سنگین جر م ہے اور اس پر کوئی عدالت آواز نہیں اُٹھا رہی ہے ۔ نئے ذخائر کی تلاش پر بھی کام نہیں کیا گیا۔ فیصل آباد چیمبر کے آر اینڈ ڈی ڈیپارٹمنٹ نے یو ای ٹی کے اشتراک سے بجلی کے ضیاع کو روکنے کے لیے کمپیوٹرائزڈ نظام وضع کیا تھا مگر اس کی مارکیٹنگ پر توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے اس سے پوری طرح فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا۔ بجلی کے ضیاع کو روک کے کم از کم 17فیصد تک کی بچت کی جا سکتی ہے جبکہ اس مقصد کے لیے ہنر مند افرادی قوت کی تیاری جاری ہے۔ یونیڈو نے NUSTکے تعاون سے ایک تربیتی سینٹر بھی قائم کیا ہے جو سرٹیفائیڈ انرجی آڈیٹر اور مینجمنٹ پروفیشنل تیار کر رہا ہے جن کے ذریعے بجلی کی بچت کے لیے بھر پور مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ بجلی کے ضیاع کو روکنے کی مہم میں انر کون(Enercon) اور نیشنل انرجی ایفی شنسی اور کنزر ویشن کے ساتھ بھر پور تعاون کرے گا۔ اس سلسلہ میں کم بجلی استعمال کرنے والے بلبوں، موٹروں اور پنکھوں کے بعد اب انرجی ایفی شنٹ ائیر کنڈیشنر بھی تیار کیے جا رہے ہیں۔ بجلی کے استعمال کی دیگر مصنوعات میں بھی انرجی سیونگ کو بنیادی اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔ نئے ڈیموں کی تعمیر بہتر کام ہے لیکن فیصل آباد کے چنیوٹ ڈیم سے بھی 240میگا واٹ تک بجلی حاصل کی جا سکتی ہے جبکہ زراعت کے لیے اضافی پانی کی فراہمی اِس کے علاوہ ہو گی۔شمسی توانائی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے ملک کے بہت سے حصوں میں 17گھنٹوں تک سورج کی روشنی دستیاب ہوتی ہے جس سے قابل تجدید اور سستی ترین بجلی حاصل کی جا سکتی ہے۔ توانائی کے اس لا محدود وسیلہ سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ کیونکہ ہائیڈرو کاربن فیول کے برعکس قابل تجدید توانائی کا یہ ذریعہ ہر قسم کی آلودگی سے پاک ہے۔ ا س موقع پر انرجی ایفی شنسی اور کنزرویشن کے بارے میں مختصر تعارف کے علاوہ نئی پالیسی کا مسودہ بھی پیش کیا گیا جس پرا سٹیک ہولڈرز سے مشاورت بھی ہوئی۔ ملک بھر کے صنعتی اور گھروں میںاس وقت سات لاکھ سے زیادہ بجلی کے کنکشنز کوزیرالتوا رکھا جا رہا ہے جس سے حکومت کواربوں روپے کا نقصان ہورہا ہے۔ ایک طرف بجلی کے کنکشنز نہیں دیے جا رہے ہیں جبکہ دوسری طرف آئی پی پیزکوان کی پیداوار استعمال کیے بغیراربوں روپے کی ادائیگی ڈالروں میں کی جا رہی ہے جوسمجھ سے بالا ترہے۔بجلی نہ ملنے سے گھریلو، صنعتی، کمرشل اورزراعت سے وابستہ لاکھوں صارفین پریشان ہیں جبکہ معیشت پربھی منفی اثرپڑ رہا ہے۔ بہت سی صنعتیں، ٹیوب ویل، ہزاروں پلازے اورگھر تیار ہونے کے باوجود قابل استعمال نہیں ہیں جس سے سرمایہ پھنسا ہوا ہے اس کا نوٹس لیا جائے۔ بجلی کے کنکشن دینے سے زرعی، صنعتی اورکمرشل شعبوں پرمثبت اثرپڑے گا، حکومت کوریونیواورعوام کوروزگارملے گا اورمجموعی کاروباری سرگرمیاں پروان چڑھیں گی مگراس میں بیوروکریسی نے رکاوٹ ڈالی ہوئی ہے۔ کئی لاکھ کنکشنز کی درخواستیں کئی سالوں سے زیرالتوا ہیں جس کی وجہ سے لوگ اب منصوبے بنانے میں تامل کررہے ہیں ۔ اگر اس مسئلے کو ختم کیا جائے تو بجلی کا کنکشن دینے سے حکومت کواربوں روپے کا ریونیوملے گا اورکم ازکم دوہزارمیگاواٹ بجلی استعمال میں آجائے گی جبکہ پاور سیکٹرمیں حکومت کی آمدنی بڑھنے سے بجلی کوباربارمہنگا کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی اورگردشی قرضہ بڑھنے کی رفتاربھی کم ہوجائے گی۔ ڈسٹریبیوشن کمپنیوں کی نا اہلی کی سزاعوام کودی جا رہی ہے جو موجودہ کمپنیوں سے میٹرخریدنے کوتیارنہیں ہیں جبکہ دیگرسپلائیرزبھی تلاش نہیں کرسکے ہیں۔ دوسری طرف کورونا کی وبا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میٹر بنانے والی کمپنیوں نے بھی کارٹیل بناکر قیمتیں بڑھا دی ہیں جن کے خلاف مسابقتی کمیشن کچھ نہیں کررہا ہے۔ ان تمام عوامل سے حکومت کواربوں روپے کا نقصان ہورہا ہے جبکہ لاکھوں تعمیراتی منصوبے، صنعتیں اور عوام متاثرہورہے ہیں۔ 2022 ء میں پاکستان میں عوام کی بد حالی بے روزگاری غربت جہالت اور جرائم میں اضافہ ہو گا۔2022 ء میں عوام کے مسائل بڑھیں گے، ان کی قوت خرید مزید کم ہو جائے گی جبکہ شرح نمو کسی صورت میں تین فیصد سے تجاوز نہیں کرے گی۔ 2022 ء میں بھی پاکستانیوں کو مہنگی بجلی، مہنگی گیس، مہنگے تیل اور مہنگی اشیائے خورد و نوش سے نجات نہیں ملے گی نہ کسی اور شعبہ میں کوئی ریلیف دیا جائے گا تاہم بناوٹی اقدامات کا سلسلہ جاری رہے گا۔شا ہد رشید بٹ نے کہا کہ امیر ممالک کے مقابلہ میں غریب ممالک میں صورتحال زیادہ خراب رہے گی، انھیں مزید قرضے لینا پڑیں گے اور عوام دو وقت کی روٹی کھانے کو ترستے رہیں گے مگر پاکستان کے حالات خطے کے دیگر ممالک کے مقابلہ میں زیادہ خراب رہیں گے۔پاکستان حالات سے نمٹنے کے لیے آئی ایم ایف کا سہارا لینے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ اسے سستے قرضے مل سکیں جبکہ سری لنکا سمیت کئی ممالک نے آئی ایم ایف کے بجائے چین سے قرضے لینے کو ترجیح دی ہے۔ موجودہ عالمی حالات میں امیر ممالک اور عالمی ادارے اپنا فرض ادا کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں اور غریب ممالک کو جو امداد دی جا رہی ہے وہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے جس سے ان کے عوام اور معیشت کووبا سے پہنچنے والے نقصان کا ازالہ ناممکن ہے۔ شاہد رشید بٹ نے کہا کہ عالمی بینک کے مطابق 2021 میں عالمی شرح نمو 5.5 فیصد تھی جو 2022 میں 4.4 فیصد اور2023میں 3.2 فیصد رہے گی جبکہ آئی ایم ایف عالمی معاشی حالات کے بارے میں پچیس جنوری کو اپنے رائے دے گا۔
وزیراعظم پاکستان کی طرف سے انٹرنیشنل چیمبرز کے اجلاس میں صنعتیں لگانے کے لیے سرکاری زمین لیز پر دینے کے فیصلہ کو خوش آئند ہے کہ اس فیصلہ سے اندرون ملک اور بیرون ملک سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ملک میں سرمایہ کاری کی ترغیب حاصل ہوگی۔صنعتی ترقی کے لیے ملک کے اندر بننے والی اشیا،غیر ضروری اور پرتعیش درآمدات پر مکمل پابندی عائد کرنے کے ساتھ ساتھ ملکی برآمدات میں اضافہ کرنا ہوگا تاکہ ملک صنعتی ترقی کی راہوں پر گامزن ہو،اگر ایسا ممکن نہ ہوسکا تو ملک آئی ایم ایف کے دلدل میں مزید دھنس جائے گا اور قرضوں کے حصول کے لیے منی بجٹ جیسے غیر حقیقی اقدامات کرنے پڑیں گے جس سے ملک میں ہوشربا مہنگائی برپا ہے۔ برآمدات آئی ایم ایف کی ایما پر بجلی ،گیس، پٹرول اور ٹیکسوں کی بھرمار سے نہیں بڑھیں گی بلکہ صنعتی شعبہ کی پیداواری لاگت میں کمی لانے ،بجلی گیس، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں استحکام سے بڑھیں گی کیونکہ مسلسل اضافوںسے صنعتی شعبہ کی پیداواری لاگت بڑھ رہی ہے اور اشیاء بڑھنے سے بیرون ملک ملکی برآمدات کے اہداف پورے نہیں ہوں گے۔برآمدات میں اضافہ کے لیے بیرون ملک سفارتخانوں میں ٹریڈ آفیسرز کو متحرک اور فعال بنائے بیرون ملک پاکستانی مصنوعات کی نمائشوں کا اہتمام کیا جائے تو ملکی برآمدا ت میں مزید اضافہ ہوگا جس سے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ اور حکومت کومزید قرضوں سے نجات ملے گی۔ ادارہ شماریات سمیت دیگر سروے رپورٹس میں انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان خطہ کا مہنگا ترین ملک ہے۔ اس طرح کی خبریں حکومت کے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔ دوسری جانب حکومت بجلی کے نرخ میں آئے روز اضافہ کر رہی ہے جس سے پیداواری لاگت خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔جس کے بعد صنعتکاروں کے پاس انڈسٹری بند کرکے سرمایہ بیرون ملک یا دیگرملکوں میں منتقل کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ نہ ہوگا۔ مہنگائی بڑھنے سے عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے جس سے نہ صرف امن و امان کی صورتحال بگڑ سکتی ہے بلکہ معیشت پر دباؤ میں مزید اضافہ ہوگا۔ صنعتکار پہلے ہی حکومت کو باور کراتے رہے ہیں کہ بروقت اقدامات کرنا ضروری ہے ورنہ معاشی استحکام ممکن نہیںحکومت سے اپیل کی کہ مہنگائی کو قابو میں کرنے اور پیداواری لاگت میں کمی کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے، تاکہ بیرونی سرمایہ کاروں سمیت مقامی سرمایہ کار اور صنعتکار کا اعتماد بحال ہوسکے۔حالیہ اعدادو شمار کے مطابق پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر 53ہزار بچے ہر سال گندا پانی اور صفائی ستھرائی کے ناقص انتظام کے باعث ڈائریا جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوکر زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔متبادل ذرائع اور ماحول دوست انرجی کا فروغ وقت کی ضرورت ہے ۔ حکومتی سطح پر تھرمل پاور پلانٹس کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے جبکہ پانی، سولر اور ونڈ انرجی کے ذریعے بجلی کی پیداوار میں اضافہ کے اقدامات کیے جائیں ۔ مہنگی بجلی اور گیس کے باعث کہ مینوفیکچرنگ کا شعبہ شدید دبائو کا شکار ہے۔ مسابقتی فضا میں مقابلہ کرنا مشکل ترین ہو گیا ہے۔ انہوں نے وزارت توانائی خاص طورپر بجلی و پانی کی وزارت سے اپیل کی کہ وہ فیول ایڈجسٹمنٹ کا فیصلہ واپس لے۔اس عام آدمی براہ راست متاثر ہو تا ہے۔معاشی ترقی کے نعرے سے ترقی کیسے ہو سکتی سوال آج بھی یہی ہے کہ “اضافی توانائی کے بغیر ترقی ممکن ہے ؟
nn