اسلام برصغیر کے مسلمانوں کی سب سے بڑی محبت ہے

829

اسلام مکے اور مدینے سے اٹھا تھا مگر جیسے جیسے تاریخ کا سفر آگے بڑھا عرب اسلام کے تشخص کو فراموش کر بیٹھے اور انہوں نے خود کو عرب قوم پرستی میں غرق کرلیا۔ ترک سلطنت عثمانیہ کا مرکز تھا مگر کمال اتاترک نے اسلام کو ترک کرکے ٹرکش نیشنل ازم کو ترک قوم کا اوڑھنا بچھونا بنادیا۔ البتہ برصغیر کے مسلمان ایک ایسی ملت ہیں جو تاریخ کے ہر دور میں اپنے اسلامی تشخص پر اصرار کرتے رہے ہیں۔ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے اسلامی تشخص اتنا اہم ہے کہ انہوں نے پاکستان کے نام سے ایک الگ ریاست کا مطالبہ کیا تو اس کی بنیاد اسلام کو بنایا۔ بدقسمتی سے یہ بات ہندوستان اور بالخصوص پاکستان کے سیکولر، سوشلسٹ اور لبرل عناصر کو پسند نہیں آتی۔ چناں چہ وہ پاکستان کے اسلامی تشخص کو دبانے اور چھپانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ کبھی وہ کہتے ہیں کہ قائداعظم سیکولر تھے اور وہ پاکستان کو سیکولر بنانا چاہتے ہیں۔ کبھی وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی تخلیق کی پشت پر برصغیر کے مسلمانوں کا معاشی مفاد تھا۔ چند روز پیش تر روزنامہ جنگ میں کمیونزم کے علمبردار ڈاکٹر سید جعفر احمد کا مضمون شائع ہوا۔ اس مضمون میں ڈاکٹر جعفر احمد نے لکھا۔
’’قائداعظم ’’مسلم اقلیت‘‘ کے حقوق کی لڑائی لڑ رہے تھے جس کو بعدازاں انہوں نے ایک ’’قوم‘‘ قرار دیا۔ ایسا کرتے وقت لامحالہ ان کو اس قوم کی ایک بنیاد بھی واضح کرنی تھی سو انہوں نے ہندوستان کے مسلمان ہونے کو ان کی قومیت کی بنیاد قرار دیا۔ (روزنامہ جنگ 25 دسمبر 2021ء)
ڈاکٹر جعفر احمد کے اس مختصر سے اقتباس کے رد میں ایک کتاب تحریر کی جاسکتی ہے مگر یہاں ہم صرف ایک کالم سے کام چلانے کی کوشش کریں گے۔ ڈاکٹر جعفر احمد کے مذکورہ بالا بیان سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ جیسے قائد اعظم چاہتے تو نہیں تھے مگر انہیں طوعاً وکرہاً برصغیر کے مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد متعین کرنا پڑی۔ ڈاکٹر جعفر کے بقول قائداعظم نے مسلمانوں کے مسلمان ہونے کو ان کی قومیت کی بنیاد قرار دیا۔ یہاں ڈاکٹر جعفر نے شعوری طور پر اسلام کا لفظ استعمال کرنے سے گریز کیا ہے۔ حالاں کہ مسلمان صرف اسلام ہی کی وجہ سے مسلمان کہلاتے ہیں۔ ڈاکٹر جعفر کا یہ خیال بھی درست نہیں ہے کہ قائداعظم نے طوعاً وکرہاً مسلمانوں کی قومیت کا تعین کیا۔ قائداعظم مسلمانوں کی قومیت متعین کرنے والے کون ہوتے ہیں مسلمانوں کی قومیت تو خود خدا اور اس کے رسول نے طے کردی ہے۔ قائداعظم نے تو صرف اس قومیت کو قیام پاکستان کے مطالبے کی بنیاد بنایا۔ سوال یہ ہے کہ آخر مسلمان برصغیر میں ایک الگ وطن کے مطالبے کو سامنے لاتے تو کس بنیاد پر؟ کیا وہ یہ کہتے کہ ہم ایک ہزار سال تک ہندوئوں کے حاکم رہے ہیں۔ چناں چہ اب ہم ان کے محکوم نہیں بن سکتے۔ کیا یہ کوئی ’’دلیل‘‘ ہوئی اور انگریز اور نہرو اسے تسلیم کرلیتے؟ کیا مسلمان یہ کہتے کہ ہمیں ہندو پسند نہیں؟ کیا اس بات کو دلیل تسلیم کرلیا جاتا؟ کیا مسلمان یہ کہتے کہ ہماری نسل، جغرافیہ اور زبان ہندوئوں سے مختلف ہے؟ ہندو اس بات کے جواب میں کہتے کہ برصغیر کے اکثر مسلمان کبھی ہندو تھے۔ چناں چہ ہماری اور مسلمانوں کی نسل ایک ہی ہے۔ رہا جغرافیہ تو ہمارا جغرافیہ بھی ایک ہے۔ جہاں تک زبان کے اختلاف اور امتیاز کا معاملہ ہے تو اردو کی 30 سے 40 فی صد لغت ہندی سے آئی ہے۔ اس طرح مسلمان اس بنیاد پر بھی ایک الگ ریاست کا مطالبہ نہیں کرسکتے تھے۔ مسلمانوں کا ’’امتیاز‘‘ تھا تو ان کا مذہب، اسلام توحید پر کھڑا ہے۔ ہندوازم نے شرک ایجاد کرلیا ہے۔ اسلام کے پیغمبر رسول اکرمؐ ہیں اور ہندوئوں کے پیغمبر یا اوتار کرشن اور رام ہیں۔ مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن ہے۔ ہندوئوں کی مقدس کتاب وید ہے، گیتا ہے، مہا بھارت ہے۔ اسلام مساوات کا درس دیتا ہے۔ ہندوازم ذات پات پر یقین رکھتا ہے۔ یہ تھا مسلمانوں کا اصل امتیاز۔ اس بنیاد پر مسلمانوں کی تہذیب ہندو تہذیب سے مختلف تھی۔ اسی بنیاد پر مسلمانوں کی تاریخ ہندوئوں کی تاریخ سے مختلف تھی۔ اس بنیاد پر مسلمانوں کی ثقافت مسلمانوں سے الگ تھی۔ چناں چہ اس لیے قائداعظم نے اسلام کو مسلمانوں کے تشخص کی بنیاد بنایا اور ایک الگ ملک کا مطالبہ کیا۔ قائداعظم نے حیرت انگیز طور پر اسلام کے لیے ’’ضابطہ ٔ حیات‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے اور کہا ہے کہ مسلمان اور ہندو زندگی کے ہر دائرے میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس اختلاف کی بنیاد صرف اور صرف اسلام ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو قائداعظم نے برصغیر کے مسلمانوں کی قومیت کا تعین طوعاً وکرہاً یا مجبوری کی حالت میں نہیں کیا۔ اسلام قائداعظم کا فطری، برجستہ اور واحد انتخاب تھا۔ اسلام نہ ہوتا تو ایک قائداعظم کیا ایک ہزار قائداعظم بھی پاکستان نہیں بناسکتے تھے۔ قائداعظم کی اصل عظمت یہ نہیں ہے کہ انہوں نے پاکستان بنایا قائد اعظم کی اصل عظمت یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کے دین کو ایک نئی مملکت کے مطالبے کی بنیاد بنایا۔ باقی جو کچھ ہے اسلام کی برکت ہے۔
تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو اسلام کا انتخاب صرف قائداعظم کی پسند نہیں تھا۔ برصغیر کے مسلمانوں کی پوری تاریخ پر صرف اسلام چھایا ہوا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اسلام برصغیر کے مسلمانوں کی سب سے بڑی محبت ہے اور برصغیر کے مسلمانوں نے تاریخ کے ہر دور میں صرف اپنی سب سے بڑی محبت کی جانب دیکھا ہے۔
مغل بادشاہ اکبر مغل اعظم کہلاتا ہے۔ اس کا دورِ حکومت50 سال پر محیط ہے۔ اس کے عہد میں مغل سلطنت ایک وسیع و عریض سلطنت بن کر ابھری۔ اس اعتبار سے اکبر کو برصغیر کے مسلمانوں کا سب سے بڑا ہیرو ہونا چاہیے۔ مگر برصغیر کے مسلمانوں نے کبھی اکبر کو اپنا ہیرو نہیں سمجھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اکبر نے ’’دین الٰہی‘‘ ایجاد کیا تھا۔ اکبر کا دین الٰہی مختلف ادیان کا ایک ملغوبہ تھا اور اسلام اس ملغوبے کا صرف ایک عنصر تھا۔ چناں چہ مسلمانوں نے اکبر کے دین الٰہی کو ہمیشہ اسلام کی توہین سمجھا اور انہوں نے اکبر سے کبھی محبت نہیں کی۔ اس کے برعکس مسلمانوں نے ہمیشہ اورنگ زیب عالمگیر سے محبت کی۔ اس کے ساتھ رحمت اللہ علیہ لگایا۔ اسے اپنا ہیرو سمجھا۔ حالاں کہ اورنگ زیب کا زمانہ مغلیہ سلطنت کے زوال کا زمانہ تھا اور مغلیہ سلطنت صرف اورنگ زیب کی وجہ سے متحد تھی۔ اورنگ زیب عالمگیر سے برصغیر کے مسلمانوں کی محبت کی وجہ یہ نہیں تھی کہ اورنگ زیب عالمگیر بہت خوبصورت اور وجیہ تھا۔ بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ اورنگ زیب ایک عامل مسلمان تھا۔ وہ شریعت کی سختی سے پابندی کرتا تھا۔ اس نے اپنے دربار میں قرآن و سنت کو بالا دست بنایا ہوا تھا۔ اس کے دربار میں علما کو بڑی قدرو منزلت حاصل تھی۔ تاریخ میں اورنگ زیب اور اس کے بھائی داراشکوہ کی کشمکش بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ اس کشمکش میں بھی برصغیر کے مسلمان اورنگ زیب کے ساتھ ہیں۔ وہ داراشکوہ کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتے۔ اس لیے کہ داراشکوہ ہندوازم سے بہت متاثر تھا۔ وہ ہندوئوں کی مقدس کتاب ویدوں کو قرآن سے برتر سمجھتا تھا۔
برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ کا ایک اہم باب مجدد الف ثانیؒ اور جہانگیر کی کشمکش ہے۔ اس کشمکش کی وجہ بھی اسلام تھا۔ مغل دربار میں عرصے سے سجدہ تعظیمی مروج تھا۔ جو شخص دربار میں آتا بادشاہ کے سامنے سرجھکاتا۔ مجدد الف ثانی نے کہا یہ سجدہ خلاف اسلام ہے۔ مسلمان کا سر صرف خدا کے سامنے جھکنے کے لیے ہے۔ چناں چہ مجدد الف ثانی نے جہانگیر سے سجدۂ تعظیمی ختم کرایا۔ مغل بادشاہوں نے ہندوئوں کو خوش کرنے کے لیے گائے کے ذبیحے پر پابندی لگائی ہوئی تھی۔ مجدد الف ثانی نے کہا کہ یہ بات بھی خلاف اسلام ہے۔ گائے اسلام میں حلال ہے۔ چناں چہ انہوں نے جہانگیر سے گائے کے ذبیحے پر عاید پابندی بھی ہٹوائی۔
خلافت عثمانیہ اور اس کا خاتمہ صرف ترکی اور اس کے مسلمانوں کا معاملہ تھا۔ مگر برصغیر کے مسلمانوں کے لیے خلافت ایک اسلامی ادارہ تھی۔ چناں چہ خلافت ترکی میں ختم ہورہی تھی اور خلافت تحریک برصغیر میں چل رہی تھی اور تحریک بھی ایسی کہ برصغیر کے مسلمان خلافت کے لیے تن من دھن کی بازی لگانے کے لیے تیار تھے۔ برصغیر کی فضا میں
بولیں اماّں محمد علی کی
جان بیٹا خلافت پہ دے دو
جیسے نعرے گونج رہے تھے۔ اس تحریک میں برصغیر کے مسلمانوں نے ترکی کے لوگوں کے لیے لاکھوں روپے کا چندہ جمع کیا۔ اس چندے میں جو مال دے سکتا تھا اس نے مال دیا۔ جو خواتین زیور دے سکتی تھیں انہوں نے زیور دیے۔ ترکی کے لیے لوگ اگر برصغیر کے مسلمانوں سے خون مانگتے تو وہ خلافت کے لیے خون بھی دیتے۔ تاریخ کے اس موقع پر پورے عالم اسلام میں سناٹے کا راج تھا۔ عالم عرب سویا پڑا تھا بلکہ خلافت کے کاتمے پر خوش تھا۔ انڈونیشیا روز ملائیشیا کے مسلمانوں کے خلافت مسئلہ ہی نہیں تھی مگر برصغیر کے مسلمانوں کا ’’مذہبی ایقان‘‘ انہیں خلافت کے لیے متحرک کیے ہوئے تھا۔ خلافت تحریک اتنی بڑی اور موثر تھی کہ گاندھی تک سے اس تحریک کا حصہ بننا پسند کیا۔
اقبال کی شخصیت عظیم الشان ہے۔ مگر ایک زمانہ تھا کہ وہ ایک قوم پرست شاعر تھے۔ وہ ہندوستان کے ترانے گارہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے۔
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
پربت وہ سب سے اونچا ہمسایہ آسماں کا
وہ سنتری ہمارا وہ پاسباں ہمارا
اقبال کی قوم پرستی نے ایک شعر تو ان سے ایسا لکھوادیا کہ ایسا شعر صرف ہندو ہی لکھ سکتا ہے۔ اقبال نے کہا ہے۔
مٹی کی مورتوں میں سمجھا ہے تو خدا ہے
خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے
مگر اسلام نے بالآخر اقبال کی قلب ماہیت کردی اور انہیں وہ بنایا جو کہ وہ تھے اس قلب ماہیت کے بعد اقبال اسلامی شاعر بن کر ابھرے اور انہوں نے
چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا
انہوں نے پھر یہ بھی کہا۔
ان تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
قائداعظم خود ایک زمانے میں ’’قوم پرست‘‘ تھے۔ اس زمانے میں وہ ’’ایک قومی‘‘ نظریے کے قائل تھے مگر پھر وہ ’’دوقومی نظریے‘‘ کے قائل ہوگئے اور دو قومی نظریہ صرف اسلام ہے۔ قائداعظم سے ایک بار کسی نے کہا کہ آپ کو تو کبھی کانگریس میں تھے۔ قائداعظم یہ سن کر مسکرائے اور فرمایا کبھی میں اسکول میں بھی پڑھتا تھا۔ ایک قومی نظریہ قائداعظم کے اسکول کا زمانہ ہے اور دو قومی نظریہ قائداعظم کی یونیورسٹی کا زمانہ ہے۔
پاکستان کی تاریخ کا تجربہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ پاکستان میں جتنی بڑی، اہم اور موثر سیاسی تحریکیں چلیں اسلام کی بنیاد پر چلیں۔ پی این اے کی تحریک اینٹی بھٹو تحریک تھی مگر اس تحریک نے دیکھتے ہی دیکھتے تحریک نظام مصطفی کی صورت اختیار کرلی۔ مارشل لا نہ لگتا تو یہ تحریک پورے نظام کو بدلنے کی تحریک بن جاتی۔ چناں چہ مارشل لا لگا ہی اس لیے کہ کہیں نظام نہ بدل کر رہ جائے۔ بھٹو صاحب سیکولر تھے مگر انہوں نے پاکستانی عوام کو خوش کرنے کے لیے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا۔ شراب پر پابندی لگائی۔ جمعہ کی تعطیل کی راہ ہموار کی۔ پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے کے لیے سیاسی اتحاد بنا تو اس کا نام ’’اسلامی جمہوری اتحاد‘‘ رکھا گیا۔ نواز شریف آج پورے پنجاب میں مقبول ہیں مگر وہ عمران خان کے خلاف کوئی تحریک نہیں چلا پارہے۔ اس لیے کہ وہ اسلام کو اپنی سیاست کی بنیاد بنانے سے گریزاں ہیں۔