کورونا کے پھیلائو میں ہوشربا اضافہ

401

دنیا بھر میں جو رجحان اومیکرون کے پھیلائو کی صورت میں تیزی سے دیکھنے میں آرہا تھا وہ اب پورے پاکستان میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہا ہے۔ وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان، اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے بتایا کہ گزشتہ تین سے چار ہفتوں میں پاکستان میں بھی وائرس کی نئی قسم کے زیادہ تر کیس، لگ بھگ 60 فی صد، دو بڑے شہروں کراچی اور لاہور میں سامنے آئے ہیں۔ کراچی میں صورتِ حال سب سے زیادہ خراب ہے جہاں کورونا وائرس کے کیسز مثبت آنے کی شرح 45.14 فی صد کی سطح پر جا پہنچی ہے۔ نیشنل کمانڈ اینڈآپریشن سینٹر نے زیادہ متاثرہ علاقوں میں تعلیمی ادارے ایک ہفتے کے لیے بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کراچی اور حیدرآباد میں جمعہ سے اِن ڈور ڈائننگ اور اِن ڈور تقریبات پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ محکمہ داخلہ سندھ نے ترمیمی نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا ہے۔ پابندی 15 فروری تک عائد رہے گی، جب کہ آئوٹ ڈور تقریبات میں ویکسی نیٹڈ 300 افراد کو شرکت کی اجازت ہوگی۔ اسلام آباد کی ضلع کچہری میں کورونا کیسز میں غیر معمولی اضافے کے بعد کورونا کا شکار ججوں کی عدالتیں بند کردی گئیں۔ این سی او سی نے کورونا کی زیادہ شرح والے علاقوں میں تعلیمی ادارے ایک ہفتے کے لیے بند کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ این سی او سی کا کہنا ہے کہ وفاق کی اکائیاں 12 سال سے زائد عمر کے طلبہ کی ویکسی نیشن کے لیے خصوصی مہم چلائیں اور 100 فی صد ویکسی نیشن یقینی بنائی جائے۔ تعلیمی ادارے ایک ہفتے کے لیے بند کرنے کے معاملے پر محکمہ تعلیم سندھ نے وضاحت جاری کی ہے اور ترجمان محکمہ تعلیم سندھ کا کہنا تھا کہ محکمہ داخلہ سندھ کو این سی او سی کا کوئی نوٹیفکیشن نہیں ملا، نوٹیفکیشن موصول ہونے کے بعد فیصلہ کیا جائے گا، اْس وقت تک سابق فیصلے کے مطابق اسکول کھلے رہیں گے۔ وفاق اور سندھ کی لڑائی اور نااہلی اپنی جگہ، لیکن عوام اپنی لاپروائی اور حکومتی بدانتظامی کی وجہ سے کورونا وائرس کا شکار ہورہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ وائرس کی یہ نئی قسم اب تک تو اتنی زیادہ مہلک اور جان لیوا ثابت نہیں ہورہی جس کا خطرہ محسوس کیا جارہا تھا، لیکن جس تیز رفتاری سے اس کا پھیلائو ہورہا ہے، وہ پریشان کن امر ہے۔
ہمارے یہاں آج بھی کورونا کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا، اب تک تحقیق میں اس نئے ویرینٹ سے متعلق جو معلومات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق اومیکرون کسی بھی شخص پر حملہ آور ہوتا ہے تو شروع شروع میں ایسا لگتا ہے کہ متاثرہ فرد کو نزلہ یا زکام ہے، کیوںکہ اس وائرس کے لاحق ہونے کی ابتدائی علامات کچھ ایسی ہی ہیں۔ دیگر عام علامات میں گلے میں خراش، ناک کا بہنا اور سردرد شامل ہیں۔ ڈاکٹر عذرا افضل پیچوہو نے بتایا کہ اب تک یہی دیکھا گیا ہے کہ اومیکرون کی علامات نسبتاً ہلکی اور فلو جیسی ہیں جو کورونا وائرس کی دیگر اقسام سے زیادہ مختلف نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اِن علامات میں ناک کا بہنا، کھانسی اور بخار شامل ہیں۔ جب کہ اس سے قبل کورونا وائرس کی دیگر اقسام میں ایک اہم علامت یہ تھی کہ متاثرہ شخص کی سونگھنے اور چکھنے کی صلاحیت عموماً متاثر ہوجاتی تھی، یعنی نہ تو کسی کھانے کا ذائقہ آتا تھا اور نہ ہی کسی قسم کی خوشبو یا بدبو کا احساس ہوتا تھا۔ یہ ایک اہم نشانی تھی جس سے معلوم ہوجاتا تھا کہ کورونا ہے۔ لیکن اب دیکھنے میں آیا ہے کہ موجودہ لہر میں یہ علامات اس شدت سے ظاہر نہیں ہوتیں۔ یہ ویرینٹ گزشتہ وائرس کی نسبت مختلف طریقے سے انسانی جسم پر اثرانداز ہوتا ہے۔ ماہرین ان اعداد و شمار کی روشنی میں بتا رہے ہیں کہ کسی کی بھی ناک کا بہنا، سر درد، تھکاوٹ، گلے میں خراش اور چھینکیں آنا کورونا کی علامات میں شامل ہیں۔ اگر یہ علامات ظاہر ہوں تو فوری طور پر اپنا ٹیسٹ کروانا چاہیے تاکہ کورونا وائرس کی تشخیص اور تصدیق ہوسکے، جس کے بعد ٹھیک سمت میں علاج ہوسکے۔ کیونکہ علاج کے درست سمت میں ہونے کی صورت میں ہی مستقبل میں بیماری کی پیچیدگی میں اضافے سے بچا جاسکتا ہے۔ اس لیے جہاں عوام کو چاہیے کہ احتیاط کریں، وہیں حکومت کو چاہیے کہ بڑے پیمانے پر مفت ٹیسٹ کروائے، کیونکہ لوگوں میں اتنی معاشی سکت نہیں رہی کہ وہ تین سے سات ہزار کے ٹیسٹ کرائیں۔ اور پھر ایک گھر میں کوئی کتنے لوگوں کے ٹیسٹ کرواسکتا ہے؟ اسی طرح گھر گھر ویکسین لگانے کے عمل کو اعلان سے ہٹ کر فوری شروع کیا جائے۔ اس پس منظر میں ڈاکٹر حضرات کی بھی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اپنے کلینکس کے اوقات میں اضافہ کریں، اور کم از کم اپنی فیس آدھی کردیں، تاکہ لوگوں میں علاج کرانے کا رجحان بڑھے اور متاثرہ افراد سیلف میڈیکیشن سے بھی بچ سکیں۔