جماعت اسلامی کا استقامت کے ساتھ دھرنا

293

جماعت اسلامی اپنے اصولی مؤقف کے ساتھ کالے بلدیاتی قانون کے خلاف سندھ اسمبلی کے باہر تیز ہوائوں اور گرد و غبار کے طوفان کے باوجود دھرنا دیے ہوئے ہے، اور جس کو اب 23 روز ہوگئے ہیں۔ ایسی استقامت اور جوش کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ شرکا انتہائی خراب موسم کے باوجود بھی نظم و ضبط اور استقامت کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ طوفانی ہوائیں چلنے کی وجہ سے دھرنے کے شامیانے، قناتیں، بینر اور لائٹیں گر گئیں لیکن دھرنا جاری ہے۔ خواتین نے بھی حسن اسکوائر پر بہت بڑا احتجاج کیا ہے، اور اتوار کو جماعت اسلامی ایک بڑا جلسہ بھی کررہی ہے جس سے امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق خطاب کریں گے۔ دوسری طرف سندھ حکومت ہٹ دھرمی میں تاحال مبتلا ہے، اور سوائے اِدھر اُدھر کی باتیں اور بیان بازی کے کچھ نہیں کررہی ہے، جس کے بارے میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ آپس میں اختلافات بہت زیادہ بڑھ چکے ہیں، جس کی وجہ سے مذاکرات آگے نہیں بڑھ پارہے ہیں۔ جب کہ معاملہ ایسا نہیں ہے کہ بات آگے بڑھ نہ سکے۔ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن ایک ہی بات کہہ رہے ہیں کہ موسم اور حالات کیسے ہی ہوں، ہم تھکیں گے نہ جھکیں گے، اور نہ اہلِ کراچی کے حق پر مبنی مطالبات سے پیچھے ہٹیں گے۔ پیپلزپارٹی بلدیاتی اختیارات کو باربار آمر مشرف کا نظام کہتی ہے، ہمارا مشورہ ہے کہ چیئرمین بلاول زرداری اور تمام صوبائی وزرا پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے 1972ء میں دیے گئے بلدیاتی اختیارات کا مطالعہ کریں اور 2001ء کے نہ سہی، 1972ء کے بلدیاتی اختیارات ہی دے دیں، ہم سمجھیں گے کہ آپ نے اپنی پارٹی کے بانی سے وفا کی۔ 1972ء کے بلدیاتی قانون میں بھی فنکشن آف پلاننگ، ڈیولپمنٹ اینڈ ٹاؤن امپروومنٹ، ماسٹر پلان، ٹاؤن پلاننگ کنٹرول، ڈیولپمنٹ کنٹرول، بلڈنگ ریگولیشن، لائسنس آف آرکی ٹیکٹ اینڈ ٹاؤن پلانرز، لینڈ ڈیولپمنٹ، تمام ترقیاتی اسکیمیں اور پبلک ہاؤسنگ کے محکمے کے ایم سی کے پاس تھے۔ 1972ء کے قانون میں تمام پبلک ہیلتھ سروسز اور اس کی منصوبہ بندی و ترقی، مینٹی نینس، سیوریج سسٹم اور بلک واٹر سپلائی، تمام اسپیشل و جنرل اسپتالوں و میٹرنٹی ہومز کا کنٹرول، تمام قبرستانوں کا انتظام، فائر فائٹرز سروسز، ہائی ویز و اہم پل، پبلک روڈ و برساتی نالوں کی منصوبہ بندی، تعمیر و ترقی، میٹروپولیٹن ٹرانسپورٹ اور ٹریفک کنٹرول سب کا انتظام کے ایم سی کے ماتحت ہوتا تھا۔ حافظ نعیم نے پیپلز پارٹی کے سامنے درست سوال اٹھایا ہے اور پوچھا ہے کہ یہ سارے اختیارات اور محکمے کسی فوجی یا سیاسی آمر نے کے ایم سی کو دیے تھے؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت ہوش کے ناخن لے اور کراچی کے لوگوں پر سے کالے بلدیاتی قانون کے تحت ظلم کا نظام ختم کرے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پانی سر سے گزر جائے اور پیپلز پارٹی کے حصے میں بھی کچھ نہ آئے، کیونکہ اب کراچی کے لوگوں کی برداشت ختم ہوتی جارہی ہے۔