گوادر: تیل صاف کرنے کے کارخانے یا ریفائنری کے قیام کی کوئی تجویز زیر غور نہیں، حماد اظہر

311

 اسلام آباد: وفاقی وزیر توانائی محمد حماد اظہر نے کہاہے کہ بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں کسی تیل صاف کرنے کے کارخانے یا ریفائنری کے قیام کی کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے۔یہ بات وفاقی وزیر توانائی محمد حماد اظہر نے قومی اسمبلی کو بتائی۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان سٹیٹ آئل کمپنی اور پاک عرب ریفائنری کے بقول انہیں گوادر میں ریفائنری کے قیام کی کسی تجویز پر غور کے لیے مذاکراتی عمل کا علم نہیں۔گوادر پورٹ اتھارٹی (جی پی اے)نے بھی یہ کہا ہے کہ فی الحال گوادر پورٹ اتھارٹی میں آئل ریفائنری کے قیام کے حوالے سے کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے۔وفاقی وزیر نے یہ وضاحت بھی کی کہ مجوزہ سعودی آرامکو ریفائنری کو کراچی منتقل نہیں کیا گیا ہے۔ منصوبے کے پری فزیبلٹی سٹڈی میں دو مقامات گوادر اور حب پر غور کیا گیا ہے، جو کنسلٹنٹ میسرز ایڈوائزین نے کیا تھا۔حب کا انتخاب اس کی معاشی قابلیت اور تکنیکی فزیبلٹی کی بنیاد پر کیا گیا تھا جس کی وجہ اس کی کے پی ٹی سے قربت تھی اور گوادر کے مقابلے میں گہرے پانی والے ایس پی ایم کے لیے کافی کم فاصلے کی ضرورت تھی۔فروری 2019 میں سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کے پاکستان کے دورے کے دوران سعودی عرب کی جانب سے 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخط کیے گئے تھے، جن میں گوادر میں ریفائنری لگانے کا معاہدہ بھی طے پایا تھا۔فی الحال اس منصوبے پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ سعودی آرامکو سٹیئرنگ کمیٹی کا آخری اجلاس جولائی 2020 میں منعقد ہوا تھا جہاں اس خیال کا اظہار کیا گیا تھا کہ عالمی اقتصادی سست روی اور ناقص پروجیکٹ اکنامکس کی وجہ سے اس منصوبے کو آگے بڑھانے کا فیصلہ ایک چیلنج ہوگا۔نئی آئل ریفائنری پالیسی 2021 کے تحت سعودی عرب کی حکومت کو دوبارہ شامل کرکے اس منصوبے کو اگلے مرحلے تک لے جانے کی تجویز دی گئی ہے، جس سے اس منصوبے میں سرمایہ کاروں کی کم ہوتی ہوئی دلچسپی کی بحالی کی حوصلہ افزائی ہوگی۔اس منصوبے پر متعلقہ حکومتوں کے درمیان دوبارہ رابطے کے بعد ٹائم لائن کا تعین کیا جائے گا۔ اگر فوری طور پر دوبارہ شروع کیا گیا تو اس منصوبے کو شروع کرنے میں تقریبا پانچ سال لگیں گے۔پاکستان اس وقت ریفائنڈ آئل مصنوعات کا خالص درآمد کنندہ ہے جو درآمدات کے ذریعے اپنی پیٹرول کی طلب کا 70 فیصد اور ڈیزل کی طلب کا 50 فیصد پورا کرتا ہے۔ماہرین کے مطابق امید کی جا رہی ہے کہ 300-400 کلو بی پی ڈی کی ریفائنری صلاحیت کے ساتھ یہ منصوبہ ملک کے آئل سپلائی چین کو بہتر بنائے گا اور اس کے درآمدی بل کو کافی حد تک کم کرے گا (تقریبا 450 ملین ڈالر سالانہ تک) اور دیگر خاطر خواہ فوائد کے ساتھ ساتھ براہ راست اور بالواسطہ روزگار کے مواقع پیدا کرے گا۔پاکستان کا اندازہ ہے کہ سال 2030 تک پاکستان میں تیل کی کھپت پانچ فیصد سالانہ جی ڈی پی میں اضافے کی بنیاد پر پانچ کروڑ ٹن تک پہنچ جائے گی۔ تیل کی موجودہ کھپت تقریبا تین کروڑ ٹن ہے۔ اس تیل کی خریداری کے لیے پاکستان کو سالانہ اربوں ڈالر کا قیمتی زرمبادلہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ ماہرین امید کر رہے ہیں کہ اس ریفائنری کے قیام سے پاکستان سالانہ کم از کم تین ارب ڈالر کی بچت کر سکتا ہے۔ اس سے مستقبل میں پاکستانی معیشت پر زرمبادلہ کا دبا کم ہو گا۔تیل جب زمین سے نکالا جاتا ہے تو وہ استعمال کے قابل نہیں ہوتا، اسی لیے اسے خام تیل کہا جاتا ہے۔ اسے صاف کرنے کے بعد اس سے مختلف مصنوعات تیار کی جاتی ہیں جن میں مائع پیٹرولیم گیس (ایل پی جی)، پیٹرول (گیسولین)، کیروسین، جیٹ فیول، ڈیزل اور فرنس آئل شامل ہیں۔خام تیل ریفائن کرنے کے عمل کا آغاز ایک بڑے ڈسٹیلیشن ٹاور سے شروع ہوتا ہے۔ یہاں خام تیل کے مائع جات اور بخارات کو ان کے مالیکیولی وزن اور نقطہ جوش کے لحاظ سے ان کے اجزا میں الگ الگ تقسیم کیا جاتا ہے۔ کیروسین، لائٹ اور ہیوی نیفتھا اور ایل پی جی کو مزید ریفائن کرکے انہیں مارکیٹ کے معیار کے مطابق تیار کیا جاتا ہے اور 20 سے زائد کارکردگی بڑھانے والے اضافی اجزا ایندھن میں شامل کیے جاتے ہیں۔تیار شدہ مصنوعات کو محفوظ اور بڑے بڑے سٹوریج ٹینکوں میں ذخیرہ کیا جاتا ہے، جہاں سے مارکیٹ میں ترسیل کا عمل جاری رہتا ہے۔ سرکاری حکام کے مطابق گوادر میں قائم کیے جانے والے آئل پلانٹ میں سالانہ تین لاکھ بیرل تیل صاف کرنے کی صلاحیت ہوگی۔ مختلف نوعیت اور حجم کی آئل ریفائنریز پر آنے والی لاگت مختلف ہوتی ہے۔ گوادر کے لیے تین لاکھ سالانہ پیداوار کے منصوبے کی بات ہو رہی ہے جس پر سرکاری حکام کے مطابق 10 ارب ڈالر سرمایہ کاری ہوگی۔  پاکستان کے وزیر پیٹرولیم غلام سرور خان کے ایک بیان پر یقین کیا جائے تو اس پلانٹ کو 2020 میں کام شروع کر دینا چاہیے تھا لیکن ابھی اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ تاہم ماہرین کے مطابق ایک درمیانے حجم کی ریفائنری کے قیام میں تین سے پانچ سال لگ سکتے ہیں۔ریفائنری کے حجم کو دیکھتے ہوئے اس بات کا تعین ہو سکے گا کہ اس میں ملازمتوں کے کتنے مواقع پیدا ہوں گے، لیکن عموما یہ تعداد پانچ سو سے لے کر ہزاروں تک جا پہنچتی ہے۔ گوادر میں یہ منصوبہ سعودی کمپنی آرمکو قائم کرے گی۔یہ پلانٹ صوبہ بلوچستان کے گوادر ساحلی شہر میں قائم ہوگا، جہاں مقامی آبادی کو ہمیشہ بیرونی سرمایہ کاری سے متعلق خدشات رہے ہیں۔ بلوچستان اسمبلی میں بھی ماضی میں سرکاری اور حزب اختلاف کے اراکین نے حکومت سے اس منصوبے سے متعلق بریفنگ کا تقاضہ کیا تھا۔ حزب اختلاف کے رکن ثنا بلوچ نے مطالبہ کیا کہ انہیں بتایا جائے کہ اس منصوبے کے لیے کن شرائط پر اراضی دی جائے گی۔