صبر او ر شکر

867

جب سے دنیا کا وجود ہے اس وقت سے آج تک جتنے بھی انسان پیدا ہوئے۔ ان کو رات اور دن، دھوپ اورچھاؤں کی طرح رنج والم، فرحت ومسرت، غم و خوشی کا بھی سامنا رہا ہے۔ ان میں سے بہت سے لوگ اپنی مصیبت اور پریشانیوں سے گھبرا جاتے ہیں اور بہت سے فرحت وشادمانی کی لہروں میں ایسا غوطہ زن ہوتے ہیں کہ وہ بھول جاتے ہیں کہ اس سے قبل وہ کیا تھے اسلام زندگی کے تمام معاملات میں انسانوں کی ہر طرح رہنمائی کرتا ہے۔
اسلام نے خوشی اور غم دونوں مواقع پر صبر اور شکر کی تاکید فرمائی ہے۔ صبر اور شکر کا رویہ دونوں طرح کے مواقع پر انسان کو معتدل انداز میں زندگی گزارنے کی تعلیم دیتا ہے۔ جس کے لیے خدا نے مصیبت سے چھٹکارا اور اجر عظیم کا وعدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کے بیشتر مقامات پر ابتلاء وآزمائش کے واقعات کے ساتھ صبر اور انسانوں پر اپنے انعامات واحسانات کا تذکرہ کرکے شکر کا حکم بھی دیا ہے۔
صبرکی تعریف
صبرکے اصل معنیٰ رکنے کے ہیں۔ یعنی نفس کو گھبراہٹ، مایوسی اور دل براشتگی سے بچا کر اپنے موقف پر جمائے رکھنا۔ قرآن میں عموماً اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ بندہ پوری طمانیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے عہد پر قائم رہے اور اس کے وعدوں پر یقین رکھے۔ عام طور پر لوگ صبر سے عجز ومسکنت، بے بسی اور لاچاری مراد لیتے ہیں۔ یہ درست نہیں ہے۔
صبر انسان کے اس قابل تعریف عمل کا نام ہے، جس کا اظہار مختلف حالات میں مختلف طریقوں سے ہوتا ہے۔ اس کی تفصیلات حسب ذیل ہیں:
1۔کسی مصیبت کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھنا 2۔میدان جنگ میں ڈٹے رہنا 3۔گفتگو میں رازداری کا خیال رکھنا 4۔نفس کو عیش کوشی سے محفوظ رکھنا 5۔ناجائز طریقے سے شہوانی خواہشات کی تکمیل سے بچنا 6۔شرافت نفس کا خیال رکھنا 7۔غصے کی حالت میں نفس کو قابو میں رکھنا… صبر کی اہمیت کے پیش نظر یہ کہنا کافی ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں تقریباً نوے مقامات پر ’’صبر‘‘ کا تذکرہ فرمایا ہے اور مشکلات میں صبر کی تلقین کی ہے۔ ساتھ ہی خود کو صبر کرنے والوں کے ساتھ ہونے کا اعلان بھی کیا ہے۔ ان میں سے چند آیات کا ذکر کیا جارہا ہے:
’’صبر اور نماز سے مدد لو، بے شک نماز ایک سخت مشکل کام ہے، مگر ان لوگوںکے لیے مشکل نہیں ہے جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں‘‘۔ (البقرہ: 45)
’’اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد لو، یقینا اللہ تبارک و تعالی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔ (البقرہ: 153)
شکرکی تعریف:
شکرکی تعریف کرتے ہوئے علامہ ابن قیمؒ فرماتے ہیں:
’’اللہ کے بندوں پر اس کی نعمت کا اثر ظاہر ہونا۔ خواہ وہ بذریعہ زبان ہو جیسے اللہ کی تعریف کی جائے یا اعتراف نعمت کیا جائے، یا پھر بذریعہ دل ہو، محبت اور لگاؤ کے سبب۔ یا پھر اعضاء وجوارح کے ذریعے سے۔ مثلاً خود کو اس کے سامنے جھکا دیا جائے، یا اس کی اطاعت کی جائے‘‘۔
جذبہ شکر انسان کے اندر عبدیت کو اجاگر کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ جو بندے کو اللہ سے قریب کرتا ہے۔ اس لیے جب انسان کی پریشانی دور ہوجائے اور اسے خدا کی طرف سے نعمت و راحت میسر ہو تو اس پر واجب ہے کہ وہ اپنے رب کو نہ بھولے بلکہ اس کا شکر ادا کرے۔ جس کا اظہار قول وعمل دونوں سے ہونا چاہیے۔ شاکر بندہ اپنے رب کے بہت سے انعامات واکرامات سے فیض یاب بھی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’اللہ نے تم کو تمھاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا اس حالت میں کہ تم کچھ نہ جانتے تھے۔ اس نے تمھیں کان دیے، آنکھیں دیں اور سوچنے والے دل دیے۔ اس لیے کہ تم شکرگزار بنو‘‘۔ (النحل: 78)
شکرکا طریقہ تو یہ ہے کہ جس پر انعام کیا گیا ہو وہ اپنے محسن کو فراموش نہ کرے اور اس کی باتوں کی پیروی کرے، وہ بھلے کام کا حکم دیتا ہے تو اسے انجام دے اور اس کی منع کردہ باتوں سے بالکلیہ اجتناب کرے۔ قرآن کریم کی دیگر آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر بے شمار انعامات واکرامات کیے ہیں۔
’’اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو تم اس کا احاطہ نہیں کرسکتے‘‘۔ (النحل: 18)
اس لیے اس کی فرماں برداری ہی اس کا شکر ہے۔ نبی کریمؐ اللہ تعالی کا بہت زیادہ شکرکرنے والے تھے۔ صحابہ نے آپ کی کثرت عبادت کو دیکھ کر سوال کیا کہ آپ اتنی زحمت کیوں برداشت کرتے ہیں۔ جس کے جواب میں آپؐ نے فرمایا:
’’کیا میں شکرگزار بندہ نہ بنوں؟‘‘ (مسلم)
یہ شکرکیسے پیداہو اس کا طریقہ نبی کریمؐ نے بتایا کہ بندہ تھوڑی سی چیز پر بھی شکرکرے، لوگوں کے احسان پر اس کا شکر ادا کرے یہی جذبہ اسے بہت زیادہ پر اور اللہ کے شکر پر بھی آمادہ کرے گا۔ نبی کریمؐ کا ارشاد ہے:

’’جو تھوڑے پر شکرنہیں کرتا وہ زیادہ پر بھی شکر گزار نہیں ہوگا۔ جو لوگوںکا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا بھی شکر گزار نہیں ہوگا۔ اللہ کی نعمتوں کو بیان کرنا شکر ہے، اور اس کا چھوڑ دینا کفر ہے۔ جماعت میں مل کر رہنا رحمت ہے اور الگ الگ رہنا عذاب ہے‘‘۔ (مسند احمد)
نبی کریمؐ کا ارشاد ہے: ’’مؤمن کا معاملہ عجیب وغریب ہے۔ اس کے تمام حالات بہتر ہیں، یہ کیفیت اس کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں۔ اگر اسے خوشی ملتی ہے تو اس پر شکرکرتا ہے، جو اس کے بہتر ہوتا ہے۔ اگر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اس پر صبرکرتا ہے، یہ اس کے لیے بہتر ہوتا ہے‘‘۔ (مسلم)
شکر ایمان کا تقاضا ہے
اللہ تعالی نے بندے کو اختیار دیا ہے کہ وہ کون سی راہ اپنائے اگر وہ شکرکی راہ اپنائے گا تو یہ اس کے حق میں بہتر ہوگا۔ اس کے برعکس اگر اس نے کفر کی راہ اپنائی تو یہ اس کے لیے باعث ہلاکت ہوگا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
’’ہم نے اسے راستہ دکھادیا، خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفرکرنے والا‘‘۔ (الدہر: 3)
شکر انسان کے جذبۂ اطاعت کو بڑھاتا ہے جو اس کے ایمان کی مضبوطی کی دلیل ہے۔ جب انسان اپنے پروردگار کا شکر ادا کرے گا تو لازماً اس کے ایمان کو قوت ملے گی۔ قرآن پاک میں ہے:
’’آخر اللہ کوکیا پڑی ہے کہ تمھیں خواہ مخواہ سزادے، اگر تم شکرگزار بندے بنے رہو اور ایمان کی روش پر چلو۔ اللہ بڑے قدردان ہے اور سب کے حال سے واقف ہے‘‘۔ (نساء: 147)
صبر اور شکرکا تعلق
صبر اور شکر دونوں لازم وملزوم ہے۔ اگر ان میں سے کوئی ایک مفقود ہوگا تو دوسرا بھی لازما موجود نہیں ہوگا۔ صبر وشکر کی اہمیت وافادیت کے پیش نظر سلف صالحین نے اس کا خاص اہتمام کیا۔ امام غزالیؒ فرماتے ہیں:
’’ایمان کا درومدار صبر پر ہے۔ اس لیے کہ افضل ترین نیکی تقویٰ ہے اور تقویٰ کا حصول صبر کے ذریعے ہوتا ہے جب کہ صبر دین کا ایک مقام ہے اور ایمان کے دو حصے ہیں ایک صبر دوسرا شکر‘‘۔
ابن عیینؒ فرماتے ہیں:
’’جس نے پنچگانہ نماز ادا کی اس نے اللہ کا شکر ادا کیا‘‘۔
حسن بصریؒ کا خیال ہے کہ ’’وہ خیر جس میں کسی طرح کا کوئی شر نہ ہو۔ اس عافیت میں ہے جو شکر کے ساتھ ہو، کتنے احسان مند ناشکرے ہیں‘‘۔
فضیل بن عیاضؒ کہتے ہیں:
’’نعمتوں پر مسلسل شکر ادا کرتے رہو، اس لیے کہ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کوئی نعمت کسی شخص سے چھن جانے کے بعد دوبارہ اسے ملی ہو‘‘۔
nn