مکّۃ المکرمہ کے مقاماتِ مُقدّسہ

352

حدیث شریف میں آیا ہے کہ حجر اسود جب جنت سے دنیا میں لایا گیا تو دودھ سے زیادہ سفید تھا۔ پھر آدمیوں کے گناہوں کی وجہ سے کالا ہوگیا۔ (ترمذی) دوسری حدیث شریف میں ہے کہ سرکار مدینہؐ نے قسم کھا کر ارشاد فرمایا: حجر اسود کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ایسی حالت میں اٹھائے گا کہ اس کی دو آنکھیں ہونگی جن سے وہ دیکھے گا اور زبان ہوگی جس سے وہ بولے گا اور اس شخص کے بارے میں گواہی دے گا کہ جس نے اس کو حق کے ساتھ بوسہ (چوما) دیا ہوگا‘‘۔ (ترمذی و ابن ماجہ)
سیدہ عائشہؓ نے فرمایا کہ میرا دل چاہتا تھا کہ میں کعبہ شریف کے اندر جا کر نماز پڑھوں تو نبی اکرمؐ نے میرا ہاتھ پکڑ کر حطیم میں داخل کر دیا اور فرمایا کہ جب تیرا دل کعبہ میں داخل ہونے کو چاہے تو یہاں آ کر نماز پڑھ لیا کر کہ یہ کعبے کا ہی ٹکرا ہے۔ تیری قوم نے جب کعبے کی تعمیر کی اس حصے کو (اخراجات کی کمی کی وجہ سے) کعبے کے باہر کر دیا۔ (ابودائود)
حدیث شریف میں ہے کہ جو میزاب رحمت کے نیچے دعا کرے اس کی دعا قبول ہوتی ہے۔ (درمختار) حدیث شریف میں ہے کہ ملتزم ایسی جگہ ہے جہاں دعا قبول ہوتی ہے۔ کسی بندے نے وہاں ایسی دعا نہیں کی جو قبول نہ ہوئی ہو۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ مستجاب کے پاس ستر ہزار فرشتے دعا پر آمین کہنے کے لیے مقرر ہیں۔ اس لیے اس کا نام مستجاب رکھا گیا۔ نبی اکرمؐ کا ارشاد ہے کہ اللہ جل شانہ کی بارہ نعمتیں روزانہ اس گھر پر نازل ہوتی ہیں جن میں سے چھ طواف کرنے والوں پر نازل ہوتی ہے، چار وہاں نماز پڑھنے والوں پر اور دو بیت اللہ کو دیکھنے والوں پر نازل ہوتی ہے۔ بیت اللہ شریف کا صرف دیکھنا ہی عبادت ہے۔ سعید بن المصیبؓ فرماتے ہیں کہ جو ایمان کی تصدیق کے ساتھ کعبہ شریف کو دیکھے اس کے گناہ ایسے جھڑتے ہیں جیسے پتے درخت سے جھڑ جاتے ہیں اور جو شخص مسجد میں بیٹھ کر صرف بیت اللہ کو دیکھتا رہے چاہے طواف، نماز نفل نہ پڑھتا ہو وہ افضل ہے اس شخص سے جو اپنے گھر میں نفلیں پڑھتا ہو اور بیت اللہ کو نہ دیکھے۔ عطاءؒ فرماتے ہیں کہ بیت اللہ کو دیکھنا بھی عبادت ہے اور بیت اللہ کو دیکھنے والا ایسا ہے جیسا کہ رات کو جاگنے والا اور دن میں روزہ رکھنے والا اور اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا اور اللہ کی طرف رجوع کرنے والا۔ عطاءؒ سے ہی نقل کیا گیا ہے کہ ایک مرتبہ بیت اللہ کو دیکھنا ایک سال کی عبادت نفل کے برابر ہے۔ طاعوسؓ کہتے ہیں کہ بیت اللہ کا دیکھنا افضل ہے اس شخص کی عبادت سے جو روزے دار، شب بیدار، مجاھد فی سبیل اللہ ہو۔ ابراھیم نخعیؒ کہتے ہیں کہ بیت اللہ کا دیکھنے والا مکہ سے باہر عبادت میں کوشش سے لگے رہنے کے برابر ہے اور طواف کرنے والوں میں جس قدر نعمتیں نازل ہوتی ہیں وہ اس حدیث سے ظاہر ہے اس لیے علماء نے لکھا ہے کہ مسجد حرام میں تحیۃ المسجد سے طواف کرنا افضل ہے۔ اگر کسی وجہ سے طواف نہ کر سکے تو تحیۃ المسجد پڑھے ورنہ بجائے تحیۃ المسجدکے مسجد میں جاتے ہی طواف کرنا افضل ہے۔ البتہ اگر نماز کا وقت ہو تو اس وقت طواف نہ کرے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کو اللہ جل شانہ نے اپنے لطف و کرم اور فضل سے کثرت سے طواف کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ نبی اکرمؐ نے مکہ کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا کہ تو کتنا بہتر شہر ہے اور مجھ کو کتنا محبوب ہے اگر میری قوم مجھے نہ نکالتی تو تیرے سوا کسی جگہ قیام نہ کرتا۔(حدیث) مکہ مکرمہ سارے شہروں سے افضل ہے اور وہاں قیام کرنا مستحب اور افضل ہے۔