جماعت اسلامی پر لسانی سیاست کا الزام

1057

ہر معاشرے میں کچھ نہ کچھ چاند پر تھوکنے والے بھی ہوتے ہیں۔ چناں چہ اس بات میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ پیپلز پارٹی کے رہنمائوں نے سندھ کے کالے بلدیاتی قانون کے حوالے سے جماعت اسلامی کی جدوجہد پر لسانی سیاست کا الزام لگایا ہے۔ سندھ کے اطلاعات و محنت کے وزیر سعید غنی نے کہا ہے کہ جماعت اسلامی صوبہ سندھ میں ایم کیو ایم طرز کی سیاست نہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی سندھ میں تقسیم اور نفرت کی سیاست کو زندہ کرنے کی کوششوں کا حصہ نہ بنے۔ انہوں نے کہا کہ بلدیاتی نظام پر اعتراض کی آڑ میں عوامی جذبات سے کھیلنا خطرناک عمل ہے۔ سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی نے کہا کہ سندھ اسمبلی پر جماعت اسلامی کے دھرنے سے اسمبلی کی بڑی بے حرمتی ہوئی ہے اور اس کا تقدس پامال ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی کراچی کی رہنما شرمیلا فاروقی نے کہا کہ مولانا مودودی کی روح جماعت اسلامی کو سندھ میں لسانی سیاست کرتے دیکھ کر قبر میں تڑپ رہی ہوگی۔ (روزنامہ ایکسپریس۔ 5 جنوری 2022ء)
جماعت اسلامی کی سیاست خفیہ نہیں ہے۔ جماعت اسلامی کا دستور جماعت اسلامی کا اصل تشخص ہے اور جماعت اسلامی کا دستور حکومت الٰہیہ اور غلبہ دین کے تصور کا استعارہ ہے۔ جماعت اسلامی کا انتخابی منشور بھی سب کے سامنے ہے۔ اس منشور میں جماعت اسلامی جمہوریت کے لیے جدوجہد کرنے والی جماعت نظر آتی ہے۔ چناں چہ جماعت اسلامی پر لسانی سیاست کا الزام جھوٹے، مکار اور اندھے لوگ ہی لگا سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اس حوالے سے ذرا اپنے تشخص کو سامنے لائے۔ پیپلز پارٹی کا تو کوئی دستور ہی نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کے منشور میں پیپلزپارٹی ایک سیکولر پارٹی ہے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سیکولر ازم کی بالادستی کی جدوجہد اسلام اور ملک کے آئین سے غداری کے مترادف ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا اور صرف اسلام ہی کے سہارے پاکستان زندہ و پائندہ رہ سکتا ہے۔ بھٹو صاحب جب تک زندہ رہے اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگاتے رہے۔ یہ نعرہ بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان اور اس کے نظریے سے غداری کے مترادف تھا اس لیے کہ اسلامی اور سوشلزم میں کوئی قدر مشترک ہی نہیں تھی۔ اسلام سوشلزم کی اور سوشلزم اسلام کی ضد تھا اسلامی سوشلزم کی اصطلاح میں ایک ہولناک تضاد بھی موجود تھا۔ اسلامی سوشلزم ایجاد کرنا ایسے ہی تھا جیسے کوئی ’’اسلامی شراب‘‘ ایجاد کرلے۔ جیسے کوئی ’’اسلامی سود‘‘ وضع کرلے۔ جیسے کوئی ’’اسلامی بے حیائی‘‘ گھڑلے۔ جماعت اسلامی کی تاریخ کا یہ پہلو بھی پوری دنیا کے سامنے ہے کہ جماعت اسلامی کے پہلے امیر مولانا مودودی اصطلاح میں ’’مہاجر‘‘ تھے۔ دوسری امیر میاں طفیل محمد اصطلاح میں ’’پنجابی‘‘ تھے۔ تیسرے امیر قاضی حسین احمد اصطلاح میں ’’پشتون‘‘ تھے۔ چوتھے امیر سید منور حسن اصطلاح میں ’’مہاجر‘‘ تھے۔ پانچویں امیر سراج الحق اصطلاح میں ’’پشتون‘‘ ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جماعت اسلامی کا امیر سندھی بھی ہوسکتا ہے، بلوچی بھی اور سرائیکی بھی۔ یہ حقائق بتارہے ہیں کہ جماعت اسلامی کا پہلا اور آخری تشخص ’’اسلام‘‘ ہے۔ پنجابیت، مہاجریت، پشتونیت، سندھیت اور بلوچیت نہیں۔ اس حوالے سے جب ہم پیپلز پارٹی کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے پہلے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو بھی ’’سندھی‘‘ تھے۔ پیپلز پارٹی کی دوسری سربراہ بے نظیر بھٹو بھی سندھی تھیں۔ پیپلزپارٹی کے تیسرے رہنما آصف علی زرداری بھی سندھی تھے اور پیپلز پارٹی کے موجودہ سربراہ بلاول زرداری بھی سندھی ہیں۔ اس تناظر میں سوال یہ ہے کہ لسانی سیاست جماعت اسلامی کررہی ہے یا پیپلز پارٹی؟ سعید غنی نے جماعت اسلامی پر تقسیم کی سیاست کا الزام بھی عاید کیا ہے۔ جماعت اسلامی کا تصور سیاست اتحاد قوم اتحاد ملت اور اتحاد امت سے عبارت ہے۔ جماعت اسلامی چاہتی ہے کہ پاکستانی قوم نسل، جغرافیے اور زبان کی بنیاد پر منقسم نہ ہو بلکہ وہ اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام کر ایک قوم بن جائے۔ جماعت اسلامی صرف پاکستان کی جماعت نہیں ہے۔ جماعت اسلامی ہندوستان میں بھی موجود ہے۔ بنگلادیش میں بھی موجود ہے۔ سری لنکا میں بھی موجود ہے اور جماعت اسلامی چاہتی ہے کہ اس خطے کے تمام مسلمان ایک ’’ملت واحدئہ‘‘ بن جائیں۔ اس سے بلند تر سطح پر جماعت اسلامی کا تصور امت گیر ہے۔ اس تصور کے تحت جماعت اسلامی چاہتی ہے کہ مسلمانوں میں عربی اور عجمی کی تقسیم نہ رہے۔ افغانی، تورانی اور ایرانی کی تقسیم نہ رہے بلکہ تمام مسلمان ایک امت واحدہ بن کر ابھریں۔ چناں چہ دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں سے جیسے رابطے جماعت اسلامی کے ہیں ایسے رابطے کسی پاکستانی جماعت کے نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں جماعت اسلامی اقبال کے اس شعر کے مصداق سیاست کرتی ہے۔ اقبال نے کہا ہے۔
بتانِ رنگ خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی
اس سلسلے میں پیپلز پارٹی کا یہ حال ہے کہ وہ ہمیشہ سے تقسیم کی سیاست کررہی ہے۔ 1970ء کے انتخابات میں شیخ مجیب الرحمن کی جماعت ملک کی اکثریتی جماعت بن کر ابھری تھی۔ مگر بھٹو صاحب نے عوامی لیگ کی اکثریت کو قبول نہیں کیا۔ انہوں نے تقسیم کی سیاست کی۔ انہوں نے اُدھر تم اِدھر ہم کا نعرہ لگایا۔ انہوں نے مغربی پاکستان کے منتخب نمائندوں کو دھمکی دی کہ اگر کسی نے ڈھاکا میں ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی تو اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ تاریخ کے اس مرحلے پر بھٹو صاحب تقسیم کی سیاست نہ کرتے تو ملک کو ٹوٹنے سے بچایا جاسکتا تھا۔ البتہ اس صورت میں پھر بھٹو ملک کے وزیراعظم نہیں بن سکتے تھے۔ تاریخ کے اس مرحلے جماعت اسلامی بنگالی پارٹی کے بجائے پاکستانی پارٹی بن کر ابھری۔ اس موقع پر البدر اور الشمس کے نوجوانوں نے دفاع پاکستان کی جنگ لڑتے ہوئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے اور جماعت اسلامی کے رہنما آج تک ملکی اتحاد کی قیمت ادا کرتے ہوئے پھانسی کے پھندے پر جھول رہے ہیں۔
سندھ میں پیپلزپارٹی کی تاریخ یہ ہے کہ وہ 1970ء کی دہائی سے تقسیم کی سیاست کررہی ہے۔ اس کا ایک ٹھوس ثبوت کوٹا سسٹم ہے۔ کوٹا سسٹم کے تحت پیپلزپارٹی نے سندھ میں لسانی سیاست کی بنیاد رکھی۔ اس نے مہاجروں کو سندھی تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ اس نے کہا مہاجر الگ قوم ہیں اور سندھی الگ قوم۔ چناں چہ سندھ کی ملازمتوں میں سندھیوں اور مہاجروں کا کوٹا الگ الگ ہوگا۔ سندھی نوجوان خواہ کتنا ہی نااہل ہو چوں کہ وہ اکثریتی برادری کا فرد ہے اس لیے اسے ملازمت مل کررہے گی۔ مہاجر نوجوان خواہ کتنا ہی اہل ہو چوں کہ وہ اقلیتی قوم کا فرد ہے اس لیے اسے ملازمت کے حق سے محروم رکھا جائے گا۔ پیپلز پارٹی کی ’’تقسیم پسندی‘‘ کا ایک ثبوت اس کا لسانی بل تھا۔ اس بل کی بنیاد پر سندھی اور اردو کو آمنے سامنے کھڑا کردیا گیا۔ حالاں کہ اردو وہ زبان ہے جس نے پاکستان خلق کیا۔ پاکستان کی دو ہی تو بنیادیں ہیں۔ ایک اسلام اور دوسری اردو۔ مگر پیپلز پارٹی نے سندھ میں اردو کو دوسری قوم کی زبان بنا کر کھڑا کردیا۔ پیپلز پارٹی اگر واقعتاً تقسیم کے بجائے اتحاد کی سیاست کی علم بردار ہے تو وہ کبھی کسی پنجابی، مہاجر اور پشتون کو اپنا سربراہ بنا کر دکھائے۔ وہ کبھی کسی مہاجر کو سندھ کی وزارت علیا پہ فائز کرنے کا کارنامہ انجام دے۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ اگر کبھی جماعت اسلامی مرکز اور سندھ میں اکثریتی پارٹی بن کر ابھرے تو اس کا وزیراعظم پنجابی بھی ہوسکتا ہے، سندھی بھی، مہاجر بھی ہوسکتا ہے، پشتون اور بلوچی بھی اسی طرح جماعت اسلامی سندھ میں اپنا وزیر اعلیٰ سندھی کو بھی بناسکتی ہے اور مہاجر اور پنجابی کو بھی۔ کیا پیپلز پارٹی نے آج تک کسی غیر سندھی کو سندھ کا وزیراعلیٰ بنایا ہے؟ یہ حقائق بتارہے ہیں کہ تقسیم کی سیاست جماعت اسلامی کا نہیں پیپلز پارٹی کا تشخص ہے۔
پیپلز پارٹی کے رہنمائوں نے جماعت اسلامی کو ایم کیو ایم کے برابر لاکھڑا کیا ہے حالاں کہ گزشتہ 37 سال کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ کراچی میں جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ نے جس طرح الطاف حسین ایم کیو ایم اور اے پی ایم ایس او کی مزاحمت کی ویسی مزاحمت ملک کی کسی جماعت اور کسی تنظیم نے نہیں کی۔ چناں چہ جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کے رہنما اور کارکن تواتر کے ساتھ ایم کیو ایم اور اے پی ایم ایس او کے غنڈوں کا نشانہ بنتے رہے۔ 1985ء سے 1991ء تک ہم جامعہ کراچی کے طالب علم تھے۔ اس عرصے میں اسلامی جمعیت طلبہ کے اتنے کارکنان شہید ہوئے کہ ہمیں لگتا تھا کہ ہم جمعیت کے نوجوانوں کی نماز جنازہ پڑھنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔
اس صورت حال کے باوجود نہ جماعت اسلامی اور جمعیت نے اپنا نظریہ بدلا نہ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے مہاجر فاشزم کے سامنے ہتھیار ڈالے۔ البتہ پیپلز پارٹی ایم کیو ایم جیسی دہشت گرد تنظیم کو چھے سات بار اقتدار میں شریک کرنے کی مجرم ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جماعت اسلامی نہیں پیپلز پارٹی ایم کیو ایم کے حلیف ہے۔
جماعت اسلامی کراچی کے تین کروڑ باشندوں کا مقدمہ لڑنے کے لیے میدان میں آئی ہے تو اس پر لسانی سیاست کا الزام لگایا جارہا ہے۔ حالاں کہ کراچی صرف مہاجروں کا شہر نہیں ہے۔ کراچی میں دس لاکھ سے زیادہ پنجابی آباد ہیں۔ 15 لاکھ سے زیادہ پشتون آباد ہیں۔ کراچی میں پانچ لاکھ سے زیادہ سندھی آباد ہیں۔ کراچی میں لاکھوں بلوچ اور سرائیکی آباد ہیں۔ یہاں تک کہ کراچی تو اب افغانیوں، بنگالیوں اور روہنگیا مسلمانوں کا بھی شہر ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جماعت اسلامی ملک کی تمام لسانی اکائیوں کا مقدمہ لڑرہی ہے۔ چوں کہ اس سلسلے میں جماعت اسلامی کی ساکھ بہترین ہے اس لیے پیپلز پارٹی جماعت پر لسانی سیاست کا الزام لگارہی ہے لیکن چاند پر تھوکنے والے کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس کا تھوکا ہوا اسی پر آگرے گا۔ چاند کا کچھ نہیں بگڑے گا۔