آئی ایم ایف، منی بجٹ، مہنگائی اور حل

464

عبدالرشید مرزا
آئی ایم ایف فنڈنگ پروگرام کی بنیاد جولائی 2019 میں رکھی گئی تھی، جو 2021 کے شروع میں قانون سازی کی اصلاحات مکمل نہ ہونے کی بنیاد پر آگے نہ بڑھ سکیں۔ 22 نومبر 2021 کو آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان معاہدہ طے پایا تھا۔ اس سے پہلے یہ معاہدہ اپریل 2021 میں تعطل کا شکار ہوگیا تھا اور اسے ایک بار پھر زیرِ بحث لایا گیا۔ جس کے نتیجے میں پاکستان کو ایک ارب ڈالرز آئی ایم ایف فنڈ کے تحت دیے جائیں گے۔ واضح رہے کہ اس فنڈ کو حاصل کرنے کے لیے پاکستان ان تمام پالیسیوں اور اصلاحات کی تکمیل کرے گا جو چھے ارب ڈالرز کے ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسلیٹی یعنی ای ایف ایف کے لیے ضروری ہیں۔ ان میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان ترمیمی ایکٹ 2021 کا منظور ہونا شامل ہے، جس کے ذریعے اسٹیٹ بینک ایکٹ 1956 میں تبدیلیاں لائی جائیں گی، ٹیکس کی چھوٹ ختم کرنا، اور بجلی کی قیمتوں میں حکومتی ڈیوٹی کو زیادہ کرنا شامل ہیں۔ ساتھ ہی پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالرز کے اس قرضے کا حساب بھی دینا ہوگا جو پاکستان کو اپریل 2020 میں کووڈ وبا سے بچاؤ کے لیے دیا گیا تھا۔ اسٹیٹ بینک آرڈیننس میں ترمیم کا پسِ منظر یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک کے کردار کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ 1956 کے تحت واضح کیا گیا تھا۔ جس کے بعد سے اس میں کئی بار تبدیلیاں اور ترامیم کی گئی ہیں ان میں سے چند خاصی واضح تبدیلیاں 1994، 1997، 2012 اور 2015 میں کی گئی ہیں۔ حکومتی ارکان کے مطابق اسٹیٹ بینک ترمیمی ایکٹ 2021 بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے تاکہ اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کی ہدایات کے مطابق چلایا جاسکے۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی میں منی بجٹ پیش کرتے ہوئے تقریباً 150 اشیا پر سیلز ٹیکس کی مد میں دی گئی چھوٹ کو ختم کر دیا گیا ہے یا اس کی شرح 17 فی صد کر دی گئی ہے جس سے حکومت کو اپنے خزانے میں 343 ارب روپے اضافے کی توقع ہے۔ دیگر اشیائے ضرورت کے ساتھ ادویات کے خام مال کی درآمد پر 17 فی صد جی ایس ٹی تجویز لگے گا اور حکومت کہتی ہے کہ یہ قابلِ واپسی ہو گا مگر پاکستان میں ریفنڈز کی تاریخ کو دیکھا جائے تو یہ بہت عرصے بعد ملتے ہیں اور صنعت کار اشیا کی قیمت میں اضافہ کر کے عام آدمی سے قیمت وصول کر لیتا ہے چنانچہ حکومت کی جانب سے لگائے سیلز ٹیکس سے ملک میں دوائیں مزید مہنگی ہوں گی اور اس کا اثر غریب آدمی پر بھی پڑے گا۔ جب صنعتی خام پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم ہوگی تو اس کا لازمی نتیجہ چیزوں کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں برآمد ہو گا۔ منی بجٹ کی منظوری کے بعد اب لوگوں کی قوت خرید میں کمی آئے گی جو ایک غریب آدمی کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے مزید مشکلات کا شکار بنائے گا۔ صنعت کار طبقے کے مطابق خام مال پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کرنے اور اس کی شرح 17 فی صد کرنے سے معیشت اور پیداواری عمل پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور خام مال کے مہنگا ہونے سے پیداواری عمل سست روی کا شکار ہونے کا خدشہ ہے جو روزگار کے مواقع کو کم کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ خام مال کے مہنگا ہونے سے جب مصنوعات مہنگی ہوتی ہیں تو یہ اسمگلنگ میں اضافے کا باعث بنتی ہیں جیسے ملک میں خوردنی تیل کی زیادہ قیمت کی وجہ سے ایران سے اسمگل شدہ خوردنی تیل اب زیادہ مارکیٹ میں آرہا ہے جس کا اثر خوردنی تیل کی صنعت پر پڑ رہا ہے۔
پاکستان میں حکومت کی جانب سے منی بجٹ کا پیش کرنا آئی ایم ایف کے مطالبات کا ایک حصہ ہے جنہیں پورا کر کے پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی قسط وصول ہو سکتی ہے۔ 400 ارب روپے اضافی ٹیکس اکٹھا کرنا ہے۔ حکومت نے وفاقی بجٹ میں 5800 ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا کرنے کا ٹارگٹ رکھا تھا تاہم آئی ایم ایف نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے اس سال ملک میں ٹیکس آمدنی 6200 ارب روپے ہونی چاہیے، تحقیقی اداروں کی ریسرچ کے مطابق منی بجٹ کے بعد افراط زر میں اعشاریہ پانچ فی صد سے ایک فی صد تک اضافہ ہوگا، تاہم ان کی ذاتی رائے میں یہ اضافہ اس سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں پہلے ہی مہنگائی ہے اور 17 فی صد جی ایس ٹی لگنے سے دیگر اشیا بھی مہنگی ہوجائیں گی۔
آئی ایم ایف، مہنگائی بیروزگاری سے بچنے اور ملکی ترقی ممکن تھی اور ہے اگر پاکستان تحریک انصاف اور پچھلی حکومتیں چند اقدامات کرتیں جس میں حکومتی اخراجات میں کمی کی جاتی، انڈسٹری کے فرغ کے لیے ٹیکس فری زونز بنائے جاتے، بجلی گیس اور کوئلہ میں اضافہ کے ساتھ سستی مہیا کی جاتی تاکہ برآمدات میں اضافہ ہوتا، غیر ضروری (تعیشات) اشیاء کی درآمدات پر پاپندی لگائی جاتی، کرپشن کو ختم کیا جاتا جس سے کسٹم ڈیوٹیز، انکم اور سیلز ٹیکس کی مد میں تین سو فی صد تک اضافہ کیا جا سکتا تھا، نیب میں چلنے والے تمام مقدمات کے ملزمان سے پیسہ وصول کیا جاتا، زراعت کے اندر جدت لائی جاتی جس سے ہم خود کفیل ہونے کے ساتھ برآمدات میں اضافہ کرتے، آبپاشی کے جدید ذرائع استعمال کرتے، پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیمز تعمیر کیے جاتے ارسا کے مطابق پاکستان میں بارشوں سے ہر سال تقریباً 145 ملین ایکڑ فِٹ پانی آتا ہے لیکن ذخیرہ کرنے کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے صرف 13۔7 ملین ایکڑ فِٹ پانی بچایا جا سکتا ہے ارسا ہی کی ایک رپورٹ کے مطابق پانی ذخیرہ کرنے کا بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان سالانہ دو کروڑ 90 لاکھ ایکڑ فٹ پانی سمندر میں پھینکتا ہے جبکہ دنیا بھر میں اوسطاً یہ شرح 86 لاکھ ایکڑ فٹ ہے۔ پاکستان میں آبی ذخائر نہ بننے کی وجہ سے سالانہ 21 ارب ڈالر مالیت کا پانی سمندر میں شامل ہو جاتا ہے۔ جنگلات میں اضافہ کیا جاتا پاکستان میں جنگلات پر تحقیق کرنے والے سرکاری تدریسی ادارے پاکستان فارسٹ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق ملک میں 90 کی دہائی میں 35 لاکھ 90 ہزار ہکٹر رقبہ جنگلات پر مشتمل تھا جو دو ہزار کی دہائی میں کم ہو کر 33 لاکھ 20 ہزار ہیکٹر تک رہ گیا۔