ڈھکن

524

یوں تو ایسا کون ہے جو ڈھکن سے واقف نہ ہو اکثر لوگ کسی نہ کسی بہانے سے ایک دوسرے کو ڈھکن کے لقب سے یاد کرتے رہتے ہیں۔ اور کہتے پائے جاتے ہیں کہ فلاں شخص تو بڑا ہی ڈھکن ہے۔ اب یہ تو کہنے والا ہی جان سکتا ہے کہ اس کی ڈھکن سے کیا مراد ہے۔ آیا مذکورہ شخص بالکل ہی عقل سے پیدل ہے یا کوڑھ مغز ہے۔ یا حد سے زیادہ ہوشیار اور عیار ہے۔ گزشتہ دنوں ہماری سیاست میں بھی ڈھکن کا کافی شور ہوا۔ جب ایک ایم این اے نے کھلے گٹروں پر ڈھکن رکھ کر تصویریں کھنچوائیں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ کافی دنوں تک ان کی اس مہم کا چرچا رہا۔
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا ڈھکن تیرا: ڈھکن پر یاد آیا کہ ایک پارٹی کے لیڈر نے پریس کانفرنس میں اپنی پانی کی بوتل سے ڈھکن کھولنے کی کوشش کی جس کو پڑوس میں بیٹھے صوبائی وزیر نے فوراً لپک لیا اور نہ صرف ڈھکن کھول کر پانی کی بوتل اپنے لیڈر موصوف کو پیش کی بلکہ ڈھکن کو ٹیشو پیپر سے صاف کرکے اپنے ہاتھ میں لیے رکھا اور جب لیڈر صاحب نے پانی پی لیا تو انہوں نے ڈھکن سے بوتل بند کر کے رکھ دی۔ آج ہمیں احساس ہوا کہ لوگ ایسے ہی وزیر نہیں بن جاتے بلکہ اس کے لیے کچھ اضافی خدمات بھی درکار ہیں۔ مثلاً ڈھکن کھولنا اور بند کرنا بھی آنا چاہیے۔
بظاہر تو ڈھکن بڑی معمولی سی شے ہے مگر ہے بڑی کام کی شے۔ اس سے آپ ہر طرح کی بوتل کا منہ بند کرسکتے ہیں۔ اب چاہے وہ بوتل شراب کی ہو یا شہد کی یا پھر سرکے کی۔ اگر ڈھکن نہ ہو تو بوتل کھلی رہ جاتی ہے اور اس میں ملاوٹ کا اندیشہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ ملاوٹ سے کسی بھی شے کی اصلیت بدل جاتی ہے۔ کبھی کبھی شراب کی بوتل لیبارٹری پہنچ کر شہد کی بوتل بن جاتی ہے کیونکہ یار لوگ جلدی میں ڈھکن بند کرنا بھول گئے تھے۔ اسی لیے سیانے ہمیشہ اپنی بوتل پر ڈھکن لگا کر رکھتے ہیں کہ مبادہ کہیں ملاوٹ نہ ہوجائے اور لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ: ڈھکن کا ذکر ہو اور خواتین کا ذکر خیر نہ ہو یہ تو ممکن ہی نہیں۔ ہر خاتون خانہ جو کچن سے شغف رکھتی ہیں۔ ڈھکن ان کی زندگی کا لازمی حصہ ہے۔ ساری زندگی بے چاریاں پتیلیوں پر ڈھکن رکھتی اور اتارتی رہتی ہیں۔ کبھی کبھی ڈھکن رکھنے اُتارنے سے کھانا صحیح سے نہیں پکتا۔ اور ذائقہ خراب ہوجاتا ہے۔ جس کا خمیازہ بعدازاں صاحب خانہ کو بھگتنا پڑتا ہے۔ لہٰذا ڈھکن لگانے اور ہٹانے کے بھی کچھ اصول ہیں۔ اگر ان پر عمل کیا جائے تو زندگی خوشگوار گزرتی ہے ورنہ اکثر جوتوں میں دال بٹتی ہے۔ کھانا بدمزہ ہوجاتا ہے اور گوشت گلنے سے رہ جاتا ہے نتیجتاً تنازع کا باعث بنتا ہے۔
یوں تو ڈھکن کئی سائز کے ہوتے ہیں۔ اور ہر ڈھکن ہر ایک کو فٹ بھی نہیں آتا۔ لہٰذا اس بات کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے کہ ڈھکن صحیح صحیح فٹ بیٹھ جائے۔ ورنہ وہ آپ کو بٹھا سکتا ہے اگر پریشر ککر کا ڈھکن ہو تو خطرہ صاف ظاہر ہے۔ اکثر نمک کالی مرچ وغیرہ شیشیوں میں رکھی جاتی ہیں۔ مگر ڈھکن میں حسب ضرورت و ذائقہ سوراخ بنے ہوتے ہیں۔ جن سے نمک پاشی کا کام لیا جاتا ہے کبھی کبھی غلط ڈھکن کی وجہ سے نمک پاشی کچھ زیادہ ہی ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ خاتون خانہ کو اس کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے۔ ڈھکن کا صحیح اور بروقت استعمال کھانے کو چارچاند لگادیتا ہے ورنہ قارئین آپ تو جانتے ہی ہیں اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہیں رہتی۔
اکثر ہم نے تو بچوں کو کولڈ ڈرنک کی بوتلوں کے ڈھکنوں سے بھی کھیلتے دیکھا ہے۔ کئی دفعہ تو لوگ محاورۃً بھی ڈھکن کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً کوئی شخص اگر بہت باتونی ہو اور بلاتکان بولے جارہا ہو تو اسے چپ کرانے کے لیے کہنا پڑتا ہے کہ کوئی ہے جو اس کے منہ پر ڈھکن لگائے۔ اب یہاں مقصد اصلی ڈھکن لگانا نہیں ہے بلکہ کسی طرح اسے چپ کرانا مقصود ہے۔ اکثر لوگ ایک دوسرے کو ڈھکن کے القاب سے یاد کرتے پائے جاتے ہیں۔ مگر اس سے واضح نہیں ہوتا کہ صاحب ڈھکن ذہین و فطین ہیں یا بے وقوف و غبی۔ اس کے لیے ان کی دیگر خصوصیات اور حر کات و سکنات کو مد نظر رکھنا ہوتا ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ڈھکن کے غلط استعمال سے محفوظ رکھے۔ آمین