کراچی : بلدیاتی قانون کیخلاف خواتین کا تاریخی مارچ و دھرنا

10504
امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن دھرنے کے اکیسویں روز حسن اسکوائر پر خواتین کے مارچ اور دھرنے سے خطاب کررہے ہیں

کراچی(اسٹاف رپورٹر)بلدیاتی کالے قانون کے خلاف جماعت اسلامی کے تحت سندھ اسمبلی کے سامنے احتجاجی دھرنے کے 21ویں روز حلقہ خواتین کی جانب سے مین یونیورسٹی روڈ حسن اسکوائر پر خواتین کا عظیم الشان احتجاجی مارچ اور دھرنا دیا گیا جس میں شہر بھر سے ہزاروں خواتین نے شرکت کی جن میں بزرگ خواتین سمیت بچے بھی شامل تھے ۔ خواتین نے سندھ حکومت اور کالے قانون کے خلاف بینرز اور پلے کارڈز اٹھائے ہوئے تھے جبکہ دوسری طرف سندھ اسمبلی پر بھی دھرنا جاری رہا جس میں شہر بھر سے سیاسی ،سماجی تنظیموں ،تاجر تنظیموں اور سول سوسائٹی کے نمائندوںسمیت مختلف وفود کی آمد اور دھرنے سے اظہار یکجہتی کا سلسلہ بھی جاری رہا ۔خواتین کے مار چ اور دھرنے سے امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن ، نائب امیر کراچی ڈاکٹر اسامہ رضی ، سیکرٹری کراچی منعم ظفر خان ،جماعت اسلامی ضلع جنوبی کے امیر و رکن سندھ اسمبلی سید عبد الرشید ودیگر نے بھی خطاب کیا جبکہ خواتین مارچ ودھرنے کی قیادت جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی سیکرٹری دردانہ صدیقی، ناظمہ صوبہ سندھ رخشندہ منیب اور ناظمہ کراچی اسماسفیر نے کی۔حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ 21دن سے سندھ اسمبلی پر جاری احتجاج اور دھرنے میں ڈٹے رہنے والوں اور استقامت کا مظاہر ہ کرنے والوں نے جدوجہد اور مزاحمت کی تاریخ رقم کی ہے جس میں خواتین بھی شامل ہیں،کراچی کی ماؤں ، بہنوں اور بیٹیوں کو تاریخ ساز مارچ ودھرنے کے انعقاد پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں،کراچی کی تاریخ میں اتنا طویل ترین احتجاج کسی نے نہیں کیا،ہم بامقصد اور سنجیدہ مذاکرات چاہتے ہیں،ہم تھکیں گے نہ جھکیں گے اور نہ اہل کراچی کے حق پر مبنی مطالبات سے پیچھے ہٹیں گے،جماعت اسلامی اتوار23جنوری کو ایک بڑا جلسہ عام کرے گی جس سے امیرجماعت اسلامی پاکستان سراج الحق خصوصی خطاب کریں گے،ہم وزیر اعلیٰ اورصوبائی وزرا سے کہتے ہیں کہ اپنی پارٹی کے بانی چیئر مین ذوالفقار علی بھٹو کے دور کے سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 1972ء کا ہی مطالعہ کرلیں،1972ء کے اس بلدیاتی نظام میں کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کوجواختیارات اور محکمے اس کے پاس تھے وہی دے دیں،بلدیاتی کالا قانون آئین کے آرٹیکل 140-A کے خلاف ہے،اکثریت کی بنیاد پر خلاف آئین اقدامات اور فیصلے تسلیم نہیں کیے جاسکتے،اکثریت کے نام پر آمریت اورفسطائیت کو ہر گز نہیں چلنے دیں گے،کراچی کو اس کا حق دے دو، پانی دے دو، سڑکیں، اسپتال، تعلیم، روزگار، ٹرانسپورٹ دے دو،کراچی کی حق تلفی اور اس پر شب خون مارنے والے حکمرانوں کے ساتھ یہاں سے مینڈیٹ لینے والے بھی شریک ہیں،لسانیت اور عصبیت کے نعرے لگائے،سیاسی دکان چمکائی اور مینڈیٹ کا سودا کیا کراچی کو کچھ نہ دیا،کراچی کو سندھ حکومت کچھ دیتی ہے اور نہ وفاقی حکومت،پورے ملک کا 42فیصد ٹیکس کراچی دیتا ہے 54فیصد ایکسپورٹ کراچی کرتا ہے،قومی خزانے کے ریونیو میں تقریباََ70فیصد اور صوبے کو 95فیصد دیتا ہے مگر کراچی کو کیا دیا جاتا ہے کچھ نہیں،وزیر اعظم عمران خان k-4کے لیے پانی دینے کو تیار نہیں،مرادعلی شاہ بھی سندھ کے حصے میں سے کراچی کو پانی نہیں دیتے، کراچی کو گیس نہیں دی جاتی،کراچی تجارتی حب ہے یہاں کی صنعتوں کو گیس نہیں ملتی،ہم کسی بھی زبان،علاقے اور صوبے کی بنیاد پر لسانیت کو مسترد کرتے ہیں لیکن ہم کہتے ہیں کہ سندھ،پنجاب ، خیبر پختونخوااوربلوچستان کی ترقی وخوشحالی کراچی کی ترقی سے منسلک ہے،کراچی پھلے پھولے گا تو اس کا فائدہ پورے ملک کو ہوگا،کراچی کے ٹیکسوں سے ملک کے دیگر شہروں میں ترقیاتی کام کرائے جاتے ہیں بالکل کرائے جائیں،لیکن کراچی میں بھی ترقیاتی منصوبے بنائے جائیں اور ساڑھے 3 کروڑ عوام کے مسائل حل کیے جائیں،یہ کہاں کا انصاف ہے کہ حالیہ صوبائی بجٹ میں کراچی کا حصہ صرف 3 فیصد اور وفاقی بجٹ میں 2فیصد رکھا گیا،جب وسائل نہیں دیے جائیں گے تو مسائل کیسے حل ہوں گے۔ امیرجماعت اسلامی کراچی نے کہاکہ کراچی کی مائیں ،بہنیں اور بیٹیاں ساڑھے 3 کروڑ عوام کے حقوق کے لیے دھرنا دے رہی ہیں، آج خواتین خیرات مانگنے کے لیے نہیں اپنا حق لینے کے لیے دھرنا دے رہی ہیں،جماعت اسلامی کراچی کے بچوں کے حقوق اور ان کے مستقبل کے لیے مقدمہ لڑرہی ہے ، کراچی پورٹ سٹی ہے اور اسے اس کا یہ مقام اور حیثیت کوئی نہیں چھین سکتا ،سرکاری سطح پر ٹرانسپورٹ کا کوئی نظام عملاً موجود نہیں ،کراچی کے 45افراد پر بس کی ایک سیٹ میسر ہے ، سندھ حکومت بھی ہر ماہ ہزاروں بسوں کی آمد کا اعلان کرتی ہے لیکن ایک بس بھی نہیں آتی، کراچی کے عوام مائیں ، بہنیں اور بیٹیاں چنگ چی رکشوں پر سفر کرنے پر مجبور ہیں ، 1967ء میںصرف خواتین کے لیے بسوں کا آغاز کیا گیاتھا جس میں خواتین کنڈیکٹر ہوتی تھیں۔انہوں نے کہاکہ کراچی کے حقوق غصب کرنے والے اپنے آپ کو کس منہ سے جمہوریت کا علمبردار کہتے ہیں ، جب میگاسٹی کے عوام کو اختیار نہیں دے سکتے ،میئر کو بااختیار نہیں بناسکتے تو کیسے جمہوری ہیں۔پوری دنیا کے لوگ ہم سے اظہار یکجہتی کررہے ہیں، کیا وجہ ہے کہ سندھ حکومت میئر کو بااختیار کرنے اور براہ راست انتخاب کرنے سے بھاگ رہی ہے ؟، ایم کیو ایم نے 35سال کراچی کے ارمانوں کا خون کیا اور عوام کے مینڈیٹ کا سودا کیا ، کراچی گزشتہ 3سال میں2ہزار ارب روپے وفاق کو دے چکا ہے ۔سندھ میں 277ارب روپے تعلیمی بجٹ ہے لیکن عملاً دیہی و شہری سندھ کے بچے تعلیم سے محروم ہیں ، دیہی سندھ میں کوئی ایک بڑا اسپتال موجود نہیں ہے ۔اسپتال ہے تو دوائیاں نہیں ہیں۔