مسٹر کلین کے وارے نیارے

501

وزیر خزانہ شوکت ترین نے ٹیکس نادہندگان کے خلاف راست اقدام کا اعلان کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگ کروڑوں کی گاڑیوں میں گھومتے ہیں۔ ایک وقت میں تیس تیس ہزار کا کھانا کھالیتے ہیں لیکن ٹیکس نہیں دیتے۔ بائیس کروڑ کی آبادی میں سے صرف تیس لاکھ افراد ٹیکس گوشوارے جمع کراتے ہیں۔ اب ہم غیر رجسٹرڈ افراد کو ان کی آمدنی اور واجب الادا ٹیکس بتائیں گے اور انہیں یہ ٹیکس دینا پڑے گا۔ باتیں تو وزیرخزانہ نے بڑی سچی اور کھری کی ہیں لیکن انہیں خود سوچنا چاہیے کہ آخر یہ کون لوگ ہیں جو انتہائی پُرتعیش زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے ہاں دولت کی ریل پیل ہے مگر وہ ٹیکس دینے پر آمادہ نہیں ہیں اگر دے بھی رہے ہیں تو آٹے میں نمک کے برابر۔ وزیرخزانہ سراغ لگائیں تو ان لوگوں کا ’’کھّرا‘‘ یقینا حکمران طبقے تک جائے گا۔ ان لوگوں کی رشتے داریاں حکمران طبقے کے ساتھ ہیں یا ماضی و حال میں وہ حکومت سازی کے عمل میں شریک رہے ہیں جب کہ ٹیکس دہندگان کی اکثریت سرکاری اور غیر سرکاری ملازمین پر مشتمل ہے جن کا ٹیکس ان کی تنخواہوں سے کاٹ لیا جاتا ہے۔ بے شک تنخواہوں میں ان کا گزارہ نہ ہوتا ہو لیکن وہ پورا ٹیکس دینے پر مجبور ہیں۔ اس کے برعکس تاجروں، صنعت کاروں اور سرمایہ داروں نے اپنے حسابات کے دوہرے کھاتے بنارکھے ہیں۔ وہ آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ظاہر کرکے ٹیکس بچالیتے ہیں۔
جو مالدار طبقہ ٹیکس نہیں دیتا، اس کی حرام خوری سے قطع نظر پوری قوم میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ ٹیکس خواہ خواص دیں یا عوام سب قوم کی جیب سے ہی جاتا ہے اور وہ حکمرانوں سے یہ پوچھنے کا پورا حق رکھتی ہے کہ اس کے ادا کردہ ٹیکس کو اللّوں تللّوں میں کیوں اُڑایا جارہا ہے اگر پاکستان معاشی بحران کا شکار ہے اور اس کا بال بال بیرونی قرضے میں جکڑا ہوا ہے تو وزیروں اور مشیروں کی فوج ظفر موج کی کیا ضرورت ہے۔ مختصر کابینہ سے کام نہیں چلایا جاسکتا؟ قوم یہ پوچھنے کا پورا حق رکھتی ہے کہ خود برسراقتدار طبقہ بھی پورا ٹیکس دیتا ہے یا نہیں۔ وزیرخزانہ نے وزیراعظم عمران خان کو ’’مسٹر کلین‘‘ کہا ہے وہ خود بھی مسٹر کلین ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اپنے وزیروں سے کہتے ہیں کہ وہ ان کی مثال کو سامنے رکھیں، ان کا وزیراعظم کرپٹ نہیں ہے اور وہ کرپشن کے خلاف جہاد کررہا ہے۔ اس تناظر میں وزیرخزانہ کا یہ انکشاف بہت دلچسپ ہے کہ عمران خان تنخواہ نہیں لیتے حالاں کہ خود خان صاحب نے کچھ عرصے پہلے یہ رونا رویا تھا کہ دو ڈھائی لاکھ میں ان کا گزارہ نہیں ہوتا۔ اب ایسی کیا تبدیلی آئی ہے کہ وہ دو ڈھائی لاکھ سے بھی بے نیاز ہوگئے ہیں اور بنی گالا کے شاہانہ اخراجات عالم بالا سے پورے ہورہے ہیں۔ عمران خان نے اس سال انکم ٹیکس کی مد میں نو لاکھ روپے قومی خزانے میں جمع کرائے ہیں۔ یہ بڑی اچھی بات ہے لیکن قوم ان سے یہ پوچھنے کا حق ضرور رکھتی ہے کہ وہ ماضی میں جو تھوڑا اور بہت تھوڑا ٹیکس جمع کراتے رہے ہیں تو کیا ماضی میں ان کے اثاثے ہی اتنے مختصر تھے یا وہ ٹیکس چوری کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اب اگر ان کے اثاثوں میں وزارت عظمیٰ کے دوران غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اور اس کی نسبت سے انہوں نے نو لاکھ ٹیکس ادا کیا ہے تو اس کی وجہ کیا ہے؟
ان دنوں عدالت میں توشہ خانہ کا کیس چل رہا ہے۔ توشہ خانہ جہاں سرکاری تحائف جمع کرائے جاتے ہیں۔ اللہ کے رسولؐ نے ریاست مدینہ کے آغاز ہی میں یہ ماحول طے کردیا تھا کہ سرکاری منصب پر فائز شخص کو اپنی ڈیوٹی کے دوران جو تحائف ملیں گے وہ سرکاری ملکیت تصور ہوں گے اور انہیں سرکاری توشہ
خانہ میں جمع کرایا جائے گا۔ دنیا نے ساڑھے چودہ سو سال کے دوران بہت سے ارتقائی مراحل طے کیے ہیں اور بالآخر اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ جمہوری نظام ہی وہ بہترین طرز حکومت ہے جس میں عوام کی داد رسی ہوتی ہے اور ان کی رائے قبول کی جاتی ہے۔ دنیا بھر کی جمہوری حکومتوں نے داعی برحقؐ کے طے کردہ توشہ خانہ کے اصول کو من و عن قبول کیا ہے اور اس پر کامیابی سے عمل کررہی ہیں۔ پاکستان میں بھی سرکاری طور پر توشہ خانہ اس اصول و قانون کے تحت قائم کیا گیا ہے لیکن ماضی میں حکمرانوں نے اس قانون کی خلاف ورزی کو اپنا معمول بنالیا تھا۔ وہ سربراہِ مملکت یا سربراہ حکومت کی حیثیت سے بیرونی ملکوں کے دورے کرتے اور وہاں سرکاری حیثیت میں انہیں جو تحائف ملتے وہ سرکاری توشہ خانہ میں جمع کرانے کے بجائے اپنے استعمال میں لے آتے یا ان کی برائے نام قیمت ادا کرکے انہیں اپنے لیے جائز قرار دے دیتے تھے۔ میاں نواز شریف نے تو سرکاری تحائف کی تفصیل بتانے سے انکار کردیا تھا اور ان کے وفادار بیورو کریٹ نے اس پر ’’قومی راز‘‘ کا ٹھپا لگادیا تھا۔ اس وقت عدالت میں توشہ خانہ کا جو کیس زیر سماعت ہے وہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف ہے۔ درخواست گزار نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو ملنے والے سرکاری تحائف کی تفصیل بتائی جائے اور یہ کہ ان تحائف کو توشہ خانہ میں کیوں جمع نہیں کرایا گیا۔ عمران خان نے جو پاکستان کو ریاست مدینہ کا ماڈل بنانا چاہتے ہیں اس معاملے میں چپ سادھ لی ہے اور ان کے وکیل نے میاں نواز شریف کی پیروی میں اسے ’’قومی راز‘‘ قرار دے دیا ہے۔
ایک اور کیس تحریک انصاف کی فنڈنگ کا ہے جو یہ بتارہا ہے کہ عمران خان کتنے ’’مسٹر کلین‘‘ ہیں۔ یہ کیس بھی تحریک انصاف کے ایک واقف راز نے دائر کیا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ تحریک انصاف کو بیرون ملک سے جو پارٹی فنڈز ملے ہیں ان میں سے بیش تر غیر قانونی اور ناجائز ہیں۔ پاکستان کا قانون اس فنڈ کو الیکشن میں استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اس لیے تحریک انصاف پر پابندی لگائی جائے۔ یہ کیس الیکشن کمیشن میں کئی سال سے زیر سماعت ہے لیکن اس پر اتنا دبائو ہے کہ وہ آج تک اس کا فیصلہ نہیں کرسکا۔ اب اسکروٹنی کمیٹی کی ایک رپورٹ آئی ہے جس میں بہت سے انکشافات کیے گئے ہیں۔ سب سے بڑا انکشاف تو یہی ہے کہ بارہ تیرہ اکائونٹس ایسے ہیں جو تحریک انصاف نے اپنے گوشوارے میں ظاہر ہی نہیں کیے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان میں ایک اکائونٹ ایسا بھی ہے جس کے ذریعے یہودیوں نے تحریک انصاف کو سرمایہ فراہم کیا ہے اور اسے 2018ء کے انتخابات میں استعمال کیا گیا ہے۔ جو اکائونٹس ظاہر کیے گئے ہیں ان کی دستاویزات بھی نامکمل ہیں۔ اکائونٹس چھپانے کا الزام اتنا سنگین ہے کہ تحریک انصاف پر پابندی لگ سکتی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں یہ کیس کئی سال سے چل رہا ہے لیکن اس پر دبائو اتنا ہے کہ وہ کوئی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ کیس اسی طرح زیر التوا پڑا رہے گا اور اگلے انتخابات سر پر آجائیں گے۔ ان انتخابات میں تحریک انصاف کو کامیاب کرانے کے لیے ای ووٹنگ کا فیصلہ کیا گیا تا کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ ہمارے ایک دوست کہتے ہیں کہ اس وقت امریکا، روس اور چین حتیٰ کہ بھارت بھی مسٹر کلین کے حق میں ہے اور یہ ساری عالمی طاقتیں چاہتی ہیں کہ آئندہ بھی مسٹر کلین ہی اقتدار میں رہیں تا کہ پاکستان ان کے ہاتھوں میں کھلونا بنا رہے۔ اس طرح مسٹر کلین کے تو وارے نیارے ہیں لیکن پاکستان کو اپنی بقا، سلامتی اور خودمختاری کے اعتبار سے سخت مشکل حالات کا سامنا ہے۔