ضمنی بجٹ، اور اس کے اثرا ت

347

یہ تو ہونا تھا، اور ہوگیا۔ وہ یہ کہ قومی اسمبلی میں ضمنی بجٹ پر حزب اختلاف کی ترامیم کو مسترد کرتے ہوئے مسودہ قانون کی منظوری دے دی گئی۔ آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر قرض کے لیے پاکستان کو پہلے سے طے شدہ ٹیکسوں اور ڈیوٹیز بڑھانے کا جو ہدف دیا گیا، ضمنی بجٹ اس مقصد کو پورا کرے گا۔ 343 ارب روپے کے مزید ٹیکس وصول کرنے کے لیے حکومت نے قریب ڈیڑھ سو اشیاء کی قیمتوں پر یکساں 17 فی صد کی شرح سے جنرل سیلز ٹیکس نافذ کردیا ہے۔ ان میں سے بیش تر اشیاء عام آدمی اور روز مرہ استعمال کی ہیں۔ سیدھی بات ہے کہ اشیاء کی قیمت پر واجب الادا ٹیکس کی شرح میں اضافہ قیمتوں میں شامل ہوگا جس سے قیمتیں بڑھ جائیںگی۔ مگر وزیر خزانہ شوکت ترین تسلی دے رہے ہیں کہ اس سے کچھ فرق نہیں پڑے گا؛ تاہم عام آدمی کی سمجھ میں ریاضی کا وہ کلیہ نہیں آرہا جو ہمارے معیشت دان وزیر خزانہ کی عقل رسا کی دسترس میں ہے۔ وہ اشیائے ضروریہ جو آج تک جی ایس ٹی سے مبرا تھیں یا ہر فرد کی ضرورت کے جن اشیا پر اس ٹیکس کی شرح کم رکھی گئی تھی، اب اگر ان سبھی اشیا پر بلا تخصیص 17 فی صد جنرل سیلز ٹیکس عائد ہوگا تو اس سے قیمتوں میں اضافہ کیونکر نہ ہوگا؟ اگر قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوتا تو حکومت کا یہ طے کردہ محصولاتی ہدف کیونکر حاصل ہوگا؟ یہ
حکومت عوام کو مسلسل مہنگائی کی چکی میں پیستی چلی جارہی ہے مگر یہ ماننے کو تیار نہیں۔ بجلی، پٹرول، ڈیزل، گیس، خوراک اور ادویات کی قیمتوں سے لے کر ڈالر کے مقابلے میں روپے کی شرح مبادلہ تک ہر شے کی قیمت حالیہ چند برس کے دوران حیران کن حد تک بڑھ گئی ہے۔ اس سب کچھ کا بوجھ ظاہر ہے فرد کی معیشت پر پڑتا ہے، مگر حکومت کا رویہ اس معاملے میں بدستور ’میں نہ مانوں‘ والا ہے۔ شاید ہی کوئی مہینہ ہو جب عوام کو بجلی اور تیل کے نرخوں میں اضافے کے کڑوے گھونٹ نہ بھرنا پڑتے ہوں۔ ملکی پیداوار مسلسل گراوٹ کا شکار ہے اور درآمدی اشیا سے طلب پوری کی جاتی ہے۔ درآمدی اشیا میں اضافہ، خاص طور پر خوراک اور عام ضرورت کی اشیا کی تجارت میں اضافہ ملکی وسائل سے طلب پوری کرنے میں ناکامی کا واضح اشارہ ہے، مگر ہمارے معاشی ذمے داران بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے میں سے بھی حسنِ کارکردگی کے جواز نکال لیتے ہیں۔ گزشتہ مالی سال کے دوران فوڈ گروپ کی درآمدات میں 54 فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور وطنِ عزیز نے آٹھ ارب 34 کروڑ ڈالر کی اشیائے خوراک درآمد کیں۔ یہ ایک زرعی معیشت کے دعویدار ملک کی حالت ہے۔ حکومت ڈالر کی قدر کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے محاسن گنواتی ہے مگر یہ احساس نہیں کرتی کہ جو ملک اپنی خوراک کی ضروریات بھی پوری نہیں کر پارہا اور تجارتی خسارے میں مسلسل اضافے کا سامنا ہے، ڈالر کے فری فال سے اس کی معیشت اور عوام کی حالت کیا ہوگی۔ عوام کی معاشی حالتِ زار سے خیر اس کا اندازہ کیا ہی جاسکتا ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی تاریخی گراوٹ کا بنیادی سبب تجارتی خسارہ ہے اور ڈالر کی اسمگلنگ، مگر حکومت دونوں پر قابو پانے میں ناکام ہے۔ نہ برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ کرکے تجارتی خسارے کو کم کیا جاسکا اور نہ ہی اسمگلنگ کی روک تھام یقینی بنائی جاسکی۔ اُلٹا حکومت نے ڈالر کی مہنگائی کو معیشت کے لیے سود مند عامل کے طور پر پیش کیا اور کبھی سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلات کی آڑ میں مہنگے ڈالر کی وکالت کی۔
اب ’مرے کو مارے شاہ مدار‘ کی صداقت ضمنی بجٹ سے ثابت ہوجائے گی، جس کی صفائی دیتے ہوئے وزیرخزانہ کہتے ہیں کہ مہنگائی نہیں ہوگی، مگر 343 ارب کے اضافی ٹیکس کیونکر وصول ہوں گے، اگر یہ عوام کی جیب سے نہیں نکلیں گے تو کہاں سے ٹپک پڑیں گے؟ ہمارے سرکاری معیشت دانوں کو ایسے سوالات سے سروکار نہیں۔
ضمنی بجٹ پر حکومت کے اندر کی کیا کیفیت ہے، وزیراعظم کی سربراہی میں گزشتہ روز پارلیمانی پارٹی اجلاس میں حکومت کے بعض اہم وزرا کی جانب سے تحفظات کے اظہار سے یہ واضح ہوجانا چاہیے۔ حکومت کے بعض اتحادیوں کی جانب سے بھی ایسے حکومتی فیصلوں پر عدم اعتماد اب ڈھکا چھپا نہیں رہا۔ حکومت اپنی تالیف قلب کے لیے جواز پیش کرسکتی ہے کہ اس کا وضع کردہ مسودہ قانون اکثریت رائے سے منظور ہوگیا یہی حکومت پر اعتماد کا اظہار ہے، لیکن دراصل ایسا نہیں ہے۔ ہمارے جیسے کمزور جمہوری اقدار کے حامل معاشروں میں اختلافِ رائے کے اظہار کی آزادی کا چلن نہیں؛ چنانچہ اپنے نکتہ اعتراض کو چھپا کر رکھا جاتا ہے یہاں تک کہ اظہار کا موقع بن جائے۔ یہ حقیقت ظاہر و باہر ہے کہ حکمران جماعت کے اپنے بعض اہم رہنما اب حکومت کے فیصلوں کی ذمے داری سے گھبراہٹ کا شکار ہیں۔ پارلیمانی سیاست اور عوام کا مزاج سمجھنے والے رہنمائوں کا تذبذب بے وجہ نہیں۔ ضمنی بجٹ کی منظوری کے روز بجلی کے ٹیرف میں چار روپے تیس پیسے فی یونٹ اضافے کا اعلامیہ بھی آچکا تھا جبکہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ بھی سب کے سامنے ہے۔ بجلی اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ خود مہنگائی کا بڑا مضبوط محرک ثابت ہوتا ہے۔ اب اس میں منی بجٹ کے اثرات بھی شامل ہوں گے تو مہنگائی دو آتشہ ہوجائے گی۔ تعجب کی بات ہے کہ حکومت یہ سب اپنے چوتھے سال میں کر رہی ہے جب زیرک سیاسی جماعتیں انتخابات کی تیاری کے لیے ذہن سازی شروع کردیتی ہیں، مگر تحریک انصاف کی حکومت بجلی، تیل، خوراک اور دیگر اشیائے ضروریہ کی مہنگائی کے ذریعے عوام کی جو ذہن سازی کررہی ہے اس کی سیاسی قیمت خارج از امکان نہیں۔ شاید بعض سیاسی رہنما اس کا احساس کرنے لگے ہیں۔