…ایک ستم اور

851

نیا سال آیا نئی امیدیں بیدار ہوئیں مگر یہ تمام خوشیاں اس وقت مانند پڑ گئیں جب ہم نے بیگم کو ماہانہ خرچ کی رقم دینا چاہی تو وہ بولی اس میں گزارہ نہیں ہوتا رقم بڑھائیے ہم نے کہا ابھی گزشتہ سال ہی تو بجٹ کے بعد ماہانہ اخراجات کے لیے رقم میں اضافہ کیا تھا اس وقت ہماری تنخواہ بھی بڑھی تھی اس لیے آپ کو بھی اضافی رقم دینے لگے تھے۔ صرف چھے ماہ کے بعد اضافہ کی کیا ضرورت آن پڑی۔ وہ بولی آپ کو معلوم نہیں منی بجٹ آیا ہے اب تو ہر چیز ہی پر سیل ٹیکس لگادیا گیا ہے۔ ماچس، نمک، سرخ مرچ، کاسمیٹکس وغیرہ تو اب آپ ہی بتائیے پرانی رقم میں گزارہ کیسے ہو؟
بیگم کی بات سن کر ہم بھی کہاں خاموش رہنے والے تھے، فوراً ہی وزیراعظم عمران خان کی دور اندیشی اور معاملہ فہمی پر لیکچر دینے کے لیے تیار ہوگئے۔ ہم نے کہا بیگم عمران خان نیا پاکستان بنارہے ہیں جس میں ضروری ہے کہ ملک کو بیماریوں سے پاک کردیاجائے۔ تمام ڈاکٹرز یہی کہتے ہیں۔ نمک کے جا بے جا استعمال سے بلڈ پریشر ہوسکتا ہے پھر نمک کی مسلسل زیادتی دل کا دورہ پڑنے کا باعث بھی ہوسکتی ہے۔ حکومت نے اچھا ہی کیا کہ اس پر ٹیکس لگادیا۔ جب نمک مہنگا ہوگا اور لوگوں کی قوت خرید میں نہیں رہے گا تو اس کا استعمال بھی کم ہوگا اور دیکھو تو نمک پر جتنا ٹیکس لگے اتنا ہی نمک کم استعمال کرنا شروع کردو تا کہ دل کی بیماریوں سے بچا جاسکے۔ رہی لال مرچ کی بات تو اس کا استعمال محض برصغیر پاک و ہند میں ہوتا ہے یورپ اور امریکا کے لوگ اگر غلطی سے مرچ استعمال کرلیں تو کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں اور یہی حال ہمارے عرب بھائیوں کا ہے۔ اگر ذرا سی مرچ استعمال کرلیں تو فل فل کہتے اور آنکھوں اور ناک سے پانی ٹپکاتے توبہ کرتے نظر آتے ہیں اور لال مرچ معدے میں السر کا باعث ہوتی ہے۔ آنتوں کی بہت سی بیماریاں لال مرچ کے استعمال سے وقوع پزیر ہوتی ہیں۔ اس لیے میں تو یہی کہتا ہوں مرچ کا استعمال ختم نہیں کرسکتی تو کم ضرور کردو اس طرح لگنے والے ٹیکس کے تناسب سے کچھ نہ کچھ بچت ہی بڑھ جائے گی۔
بیگم بپھر کر بولیں آپ کی یہ منطق میری سمجھ میں تو نہیں آتی لیکن چلو نمک و مرچ کا استعمال کم کر بھی لیا جائے تو ماچس کا کیا کریں پہلے تو گیس آتی تھی جو تیلی کا اشارہ پاتے ہی بھڑک جاتی تھی مگر جب سے یہ گیس آنا بند ہوئی ہے تو لکڑیاں جلانے کے لیے بار بار تیلی جلانا پڑتی ہے اور پھر جب یہ لکڑیاں سلگتی ہیں تو آنکھوں سے آنسو بہتے جاتے ہیں اور گیس والوں کے لیے دل سے بددعائیں نکلتی رہتی ہیں۔ میں نے کہا تمہاری اس بات میں خاصا وزن ہے۔ ماچس اور لکڑیوں کے استعمال کی وجہ سے فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار مزید بڑھے گی یوں ماحول مزید آلودہ ہوگا۔ ابھی تو بلین ٹرین منصوبہ شروع ہوا ہے اس کے ثمرات سمیٹنے میں کئی دہائیاں لگ جائیں گی کیوں کہ پنجاب اور خیبر پختون خوا کے میدانی علاقوں میں موسم سرما کے آغاز سے فضا میں جو اسموک نمایاں ہوئی ہے اس سے تو یہی لگتا ہے کہ بلین ٹری کا منصوبہ ابھی اپنے اثرات دکھانے سے قاصر ہے۔
بیگم نے ایک اور جانب توجہ دلائی بولیں کاسمیٹکس پر بھی ٹیکس میں اضافہ ہوا ہے۔ میں نے کہا یہ چیزیں جلد کے لیے نقصان دہ ہوا کرتی ہیں۔ عمران خان بڑے دور اندیش ہیں وہ چاہتے ہیں کہ ہماری خواتین قدرتی حسن کو شعار بنائیں۔ بلاوجہ کے دکھاوے سے کیا فائدہ۔ وہ غصہ سے بولیں ٹھیک ہے آنے والی نوجوان نسل میک اپ سے دور رہے مگر ہم تو اس کے عادی ہوچکے اگر آج اس کا استعمال چھوڑ دیں تو جن لوگوں سے کبھی کبھی ملاقات ہوتی ہے وہ ہمیں پہچان بھی نہ سکیں۔ ہم نے سمجھایا کہ یہ فضول خرچی ہے اسے چھوڑ دو تو بہتر ہے۔ دیکھو تم وقت سے پہلے ہی بوڑھی لگنے لگی ان پروڈکٹس میں شامل کیمیکل کا نجانے اور کیا کیا نقصان ہوتا ہوگا۔ میری مانوں پرانی بڑی بوڑھیوں کی طرح اپنا سنگھار کا انداز اپنائو۔ بالوں میں مہندی لگائو، جلد کو بہتر بنانے کے لیے ملتانی مٹی استعمال کرلی، بالوں کو دھونے کے لیے ریٹھا اور آملہ کا استعمال کیا کرو۔
میری گفتگو جاری تھی بیگم بڑی خاموشی اور توجہ سے سن رہی تھیں۔ میں سمجھا کہ ان پر میری نصیحت کا اثر ہورہا ہے میں نے اپنی بات میں زور پیدا کرنے کے لیے انہیں یاد دلایا کہ گھر کے بڑھتے ہوئے اخراجات اور قرضے کی ادائیگی کی خاطر جی پی فنڈ ایڈوانس لیا تھا۔ وہ بھی ختم ہو چلا، مہنگائی ہے کہ تھمنے میں نہیں آتی، اب تم ہی کہو میں کیا کروں؟ بیگم میری بات ختم ہونے سے قبل ہی فیصلہ کن انداز میں بولیں۔ مجھے ماہانہ خرچ کی رقم مت دیجیے۔ آپ خود ہی گھر چلائیے اور رقم ہماری طرف بڑھاتے ہوئے خود باورچی خانہ کی طرف چل دیں۔ ان کے جاتے ہی ہم یہ سوچنے لگے کہتی تو سچ ہیں مگر ہم بھی کیا کریں حکومت منی بجٹ تو لائی ہے جس میں کم و بیش ہر شے پر ٹیکس لگادیا گیا مگر سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں اضافہ کا اعلان حکومت سرے سے گول کرگئی ہے۔