مہنگائی اور منی بجٹ کے خلاف دھرنا

359

آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں 28 جنوری 2022ء کو طلب کرلیا گیا ہے۔ اس اجلاس میں پاکستان کے بارے میں 6 ارب ڈالر کے توسیعی منصوبے کا چھٹا جائزہ لیا جائے گا۔ آئی ایم ایف کی پاکستان پر پیشگی شرائط کی تھیں جن پر عملدرآمد کے لیے 12 جنوری کی مہلت دی گئی تھی، لیکن حکومت پاکستان ان شرائط پر مکمل عملدرآمد نہیں کرسکی تھی اس لیے وزارت خزانہ نے اجلاس کی تاریخ آگے بڑھانے کی درخواست کی تھی۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق حکومت پارلیمان سے منی بجٹ منظور کراچکی ہے، جب کہ اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کا متنازع بل قومی اسمبلی سے تو منظور ہوچکا ہے، سینیٹ میں منظوری زیر غور ہے۔ حزب اختلاف کی نمائشی اور کمزور مزاحمت کے سبب جس طرح آسانی سے منی بجٹ منظور کیا گیا ہے، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ سینیٹ میں حکومت کو عددی برتری حاصل نہ ہونے کے باوجود یہ متنازع بل بھی منظور ہوجائے گا۔ آئی ایم ایف کے انتظامی بورڈ کے اجلاس میں اپریل 2021ء سے معطل 6 ارب ڈالر کے قرض پروگرام کی بحالی منظور ہوگئی تو ایک ارب ڈالر کے قرض کی نئی قسط بحال ہوجائے گی۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق حکومت کو ہر قسم کی زرِتلافی بھی ختم کرنی ہوگی، اسی کے ساتھ آئندہ تین برس تک ہر ماہ بجلی کے نرخوں میں اضافہ ہوگا۔ آئی ایم ایف کے معاہدوں کی شرائط کی وجہ سے پاکستانی کرنسی انتہائی کمزور ہوچکی ہے اور ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے قرضوں کے حجم میں بھی بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ درآمدات اور برآمدات کے فرق سے زرمبادلہ کے ذخائر اور عدم توازن کا بحران پیدا ہوتا ہے جس کی وجہ سے قرض کی ادائیگی کے باوجود قرضوں کا حجم بڑھتا رہتا ہے۔ اس لیے آئی ایم ایف اور عالمی مالیاتی اداروں اور امریکا کے زرخرید ماہرین معیشت کے سوا تمام ماہرین معیشت اور مبصرین نے ان معاہدوں کو ملک کے لیے تباہ کن اور عوام کے سر پر مہنگائی اور بے روزگاری کا عذاب قرار دیا ہے۔ اس حوالے سے متنازع اسٹیٹ بینک ترمیمی بل بھی زیر بحث ہے۔ ماہرینِ معاشیات کی نظر میں یہ بل ملکی خود مختاری و سالمیت کے لیے خطرناک ہے جس کی وجہ سے ریاست کے مفلوج ہونے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کے بعض رہنما اس عمل کو سقوط ڈھاکا سے بھی بڑا ’’سرنڈر‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ اسمبلی میں پرجوش تقریروں کے باوجود حزب اختلاف کی جماعتوں نے منی بجٹ منظوری سے روکنے کے لیے سنجیدہ مزاحمت نہیں کی۔ حالاں کہ حکمراں پاکستان تحریک انصاف کو پارلیمان میں سادہ اکثریت حاصل نہیں ہے۔ سینیٹ میں تو اسے اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر بھی اکثریت حاصل نہیں ہے۔ اسی وجہ سے حکومت آئی ایم ایف کے درآمدہ وزیرخزانہ کو سینیٹر منتخب کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکی تھی۔ اس واقعے کو یہ سمجھا گیا تھا کہ آئی ایم ایف کے حکم پر تباہ کن معاشی پالیسیوں کو مسلط کرنے کے خلاف حزب اختلاف کی جماعت سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمان نے اپنی ناراضی کا اظہار کیا ہے، لیکن ڈاکٹر عبدالحفیظ کے جانشین شوکت ترین بھی اسی پالیسی کو لے کر چل رہے ہیں۔ اسی دوران میں حکومت نے قومی سلامتی پالیسی بھی جاری کی ہے جس کی تیاری گزشتہ حکومت کے دور سے چل رہی ہے۔ قومی سلامتی پالیسی میں معیشت کو کلیدی نکتہ بیان کیا گیا ہے۔ اس کے باوجود حکومتی اور ریاستی سطح پر معیشت کو آزاد رکھنے اور قومی سلامتی کی ضمانت بنانے کے لیے کوئی قدم نظر نہیں آتا۔ وزیراعظم عمران خان نے اعتراف کیا ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کی وجہ سے قومی سلامتی خطرے میں پڑتی ہے۔ لیکن پاکستان کی خودمختاری اور سلامتی کے لیے خطرناک اقدامات پورے جوش و جذبے سے کیے جارہے ہیں۔ حزب اختلاف کے قائدین اور رہنمائوں کے سخت بیانات کے باوجود کوئی ٹھوس مزاحمت سامنے نہیں آرہی ہے، جب کہ سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سابقہ قرضوں کے بعد موجودہ حکومت کے دور میں لیا جانے والا 6 ارب ڈالر کے قرضوں کا پروگرام اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہورہا ہے، جس کی وجہ سے غریب سے غریب اور متوسط طبقہ تو پس کر رہ گیا ہے، تاجر اور صنعت کار بھی اپنے آپ کو عذاب میں گھرا ہوا محسوس کررہا ہے، اس بارے میں عملی مزاحمت کا اعلان صرف جماعت اسلامی نے کیا ہے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے مہنگائی، بے روزگاری اور منی بجٹ کے خلاف پورے ملک میں 101 دھرنے دینے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے لاہور میں جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک کا معاشی سقوط ہوچکا ہے، ’’سلیکٹڈ‘‘ کو فکر ہے نہ ’’سلیکٹرز‘‘ کو پروا، تینوں بڑی جماعتوں کی خاموش مفاحمت ہے۔ عوام مہنگائی اور غربت سے کراہ رہے ہیں، معاشی بحران کے نتیجے میں ہمارا ایٹمی پروگرام رول بیک ہوسکتا ہے، حکومت نے منی بجٹ واپس نہ لیا، اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں 50 فی صد کمی نہ کی، گورنر اسٹیٹ بینک کو عہدے سے نہ ہٹایا اور سودی معیشت کے خاتمے کے لیے اقدامات نہ کیے تو حتمی 101 واں دھرنا اسلام آباد میں دیا جائے گا۔ سابق حکمرانوں نے معیشت تباہ کی اور عوام دشمن پالیسیاں بنائیں، پی ٹی آئی حکومت نے تمام حدیں پار کردیں، ملک پر عالمی ساہوکاروں کا قبضہ ہوچکا ہے۔ آئی ایم ایف، عالمی بینک اور ایف اے ٹی ایف کے ہاتھوں ملکی خودمختاری کا سودا کردیا گیا۔ جماعت اسلامی نے مہنگائی و بے روزگاری کے خلاف ملکی خودمختاری اور سالمیت کے حصول کے لیے عملی مزاحمت کا اعلان کردیا ہے۔ پارلیمان میں جو جماعتیں موجود ہیں۔ یہ تینوں بڑی پارٹیاں ان تمام معاہدوں میں شریک رہی ہیں جو ملکی معیشت کی تباہی کا باعث بنی ہیں اور اسٹیبلشمنٹ ان کی سہولت کار رہی ہے جس کی وجہ سے کوئی عملی مزاحمت نہیں ہوسکی ہے۔