قال اللہ تعالیٰ وقال رسول اللہ ﷺ

224

پھر جب طالوت لشکر لے کر چلا، تو اْس نے کہا: ’’ایک دریا پر اللہ کی طرف سے تمہاری آزمائش ہونے والی ہے جواس کا پانی پیے گا، وہ میرا ساتھی نہیں میرا ساتھی صرف وہ ہے جو اس سے پیاس نہ بجھائے، ہاں ایک آدھ چلو کوئی پی لے، تو پی لے‘‘ مگر ایک گروہ قلیل کے سوا وہ سب اس دریا سے سیراب ہوئے پھر جب طالوت اور اس کے ساتھی مسلمان دریا پار کر کے آگے بڑھے، تو اْنہوں نے طالوت سے کہہ دیا کہ آج ہم میں جالوت اور اس کے لشکروں کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے لیکن جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ انہیں ایک دن اللہ سے ملنا ہے، انہوں نے کہا: ’’بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھی ہے‘‘۔ (سورۃ البقرۃ:249)

سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے اپنے رب سے روایت کرتے ہوئے فرمایا: اللہ نیکیوں اور برائیوں کو لکھتا ہے تو جس شخص نے کسی نیکی کے کرنے کی نیت کی لیکن وہ نہیں کر سکا تو اس کے نامہ اعمال میں وہ ایک نیکی کی حیثیت سے درج ہو جاتی ہے اور اگر اس نے ایک نیک کام کرنے کی نیت کی اور اسے کر ڈالا تو وہ ایک نیکی اللہ تعالیٰ کے نزدیک دس نیکی لکھی جاتی ہے بلکہ سات سو گنا نیکیاں لکھی جاتی ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ اور اگر کسی نے ایک برائی کرنے کا ارادہ کیا پھر اسے نہیں کیا تو اس کے نامہ اعمال میں یہ ایک مکمل نیکی کی حیثیت سے لکھی جاتی ہے اور اگر برائی کی نیت کی اور اسے کر ڈالا تو اللہ اس کے نامہ اعمال میں ایک ہی برائی لکھتا ہے اگر توبہ کر لی تو اس کو مٹا دیتا ہے اور برباد ہونے والا ہی اللہ کے یہاں برباد ہوگا۔ (ترغیب و ترہیب بحوالہ بخاری ومسلم)