دھرنا بدستور جاری،کراچی کو پرویزمشرف نہ سہی ذوالفقار علی بھٹو دور کے بلدیاتی اختیارات دے دو،جماعت اسلامی

451
امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن سندھ اسمبلی کے باہر دھرنے کے بیسویں روز شرکاء سے خطاب کررہے ہیں

کراچی(اسٹاف رپورٹر)کالے بلدیاتی قانون کے خلاف جماعت اسلامی کے تحت سندھ اسمبلی کے باہر دھرنے کے20 دن مکمل ہوگئے ،آج حسن اسکوائر پر خواتین کا عظیم الشان مارچ و دھرنا ہوگا ،اگلے مرحلے میںکراچی کے اہم اور اسٹریٹجکٹ پوائنٹ پر دھرنے دیے جائیں گے، ایک ہفتے میں پورے شہر میں 2ہزار کارنر میٹنگز ہوںگی۔ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے سندھ اسمبلی کے باہر دھرنے کے بیسویں روز شرکا ، میڈیا ، وفود اور آن لائن دھرنے میں شرکت کرنے والے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری سے کہتے ہیں کہ کراچی کو پرویز مشرف دور کے اختیارات نہیں دیتے نہ سہی ذوالفقار علی بھٹو دور کے بلدیاتی اختیارات دے دو، ہم کراچی کے 3 کروڑ سے زاید عوام کے جائز اور قانونی حقوق اور شہر کے گمبھیر مسائل کے حل کے لیے بااختیار شہری حکومت کے قیام اور میئر اوربلدیاتی اداروں کے اختیارات اور وسائل کا مطالبہ کررہے ہیں،ہمارے تمام مطالبات آئینی اور قانونی ہیں، ان مطالبات کوکسی آمر کے نظام کا نام دے کر رد نہیں کیا جاسکتا۔ وزیر اعلیٰ،صوبائی ترجمان اور وزیر اطلاعات عوام کو دھوکا دینے کے بجائے شہری ادارے بلدیہ کے حوالے کریں،ان کے اختیارات اور وسائل واپس کریں۔ اپنی پارٹی کے بانی چیئر مین ذوالفقار علی بھٹو کے دور کے سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈیننس1972ء کا ہی مطالعہ کرلیں، 1972ء کے اس بلدیاتی نظام میں کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کوجواختیارات اور محکمے اس کے پاس تھے وہی دے دیں،ہم سعید غنی خاصخیلی کو بتانا چاہتے ہیں کہ 1972ء کے بلدیاتی قانون میں بھی فنکشن آف پلاننگ،ڈیولپمنٹ اینڈ ٹاؤن ایمپروومنٹ،ماسٹر پلان ٹاؤن پلاننگ کنٹرول، ڈیولپمنٹ کنٹرول،بلڈنگ ریگولیشن،لائسنس آف آرکیٹیکٹ اینڈ ٹاؤ ن پلانرز،لینڈ ڈیولپمنٹ تمام تر قیاتی اسکیمیں اور پبلک ہاؤسنگ کے محکمے سب کے ایم سی کے پاس تھے۔1972ء کے قانون میں تمام پبلک ہیلتھ سروسزاوراس کی منصوبہ بندی و ترقی، مینٹیننس،سیوریج سسٹم اور بلک واٹر سپلائی،تمام اسپیشل و جنرل اسپتالوں و میٹرنٹی ہومز کا کنٹرول،تمام قبرستانوں کا انتظام ،فائر فائٹرزسروسز،ہائی ویز و اہم پل،پبلک روڈو برساتی نالوں کی منصوبہ بندی،تعمیر و ترقی میٹروپولیٹن ٹرانسپورٹ اور ٹریفک کنٹرول سب کا انتظام کے ایم سی کے ماتحت ہوتا تھا۔سعید غنی خاصخیلی خود فیصلہ کریں کہ یہ سارے اختیارات اور محکمے کس فوجی یا سیاسی آمر نے کے ایم سی کو دیے تھے؟،ہم بھی آج کراچی کے لیے یہی اختیارات مانگ رہے ہیں۔1987ء میں عبدالستار افغانی نے بھی موٹر وہیکل ٹیکس سندھ حکومت سے کے ایم سی کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تھاجس پر ان کی بلدیہ کو توڑ دیا گیا اور میئر افغانی سمیت بڑی تعداد میں کونسلرزکو گرفتار کرلیاگیا ہمارا آج بھی مطالبہ ہے کہ موٹر وہیکل ٹیکس کے ایم سی کے حوالے کیا جائے اور یہ ٹیکس کراچی پر بھی خرچ کیا جائے، ہمارا مطالبہ ہے کہ کراچی کو میگا سٹی کا درجہ دیا جائے ،دیہی و شہری آبادی میں یکساں تناسب سے نئی حلقہ بندیاں کی جائیں ،بین الاقوامی طرزکا ٹرانسپورٹ کا نظام دیا جائے،شہر میں میئر ،ڈپٹی میئر ،کونسل کے ارکان کا براہ راست انتخاب کیا جائے ،کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کا نگران بااختیار میئر کو بنایا جائے ،بااختیار شہری حکومت کے ماتحت صحت ،تعلیم، اسپورٹس، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کا مربوط نظام بنایا جائے، کے ڈی اے ،ایس بی سی اے ،واٹر اینڈ سیوریج بورڈ ،سٹی پولیس وٹریفک پولیس سمیت بلدیاتی ادارے میگاسٹی گورنمنٹ کے تحت کیے جائیں ،کوٹا سسٹم ختم اورنئی مردم شماری ڈی فیکٹو کے بجائے ڈیجور طریقے سے کی جائے ۔حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم نے جعلی مردم شماری جس میں کراچی کی آدھی آبادی کو غائب کردیا گیا کی حتمی منظوری دے کر اور کوٹا سسٹم میں غیر معینہ مدت تک اضافہ کر کے نہ صرف اہل کراچی کے مستقبل پر شب خون مارابلکہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی من مانی اور بد عنوانیوں کے لیے راہ ہموار کردی ، پیپلز پارٹی خو ش ہے کہ جو کام و ہ نہ کر سکی وہ پی ٹی آئی او ر ایم کیو ایم نے کردیا اور حقیقت یہ ہے کہ کراچی کے ساتھ ظم و زیادتی اور حق تلفی میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم برابر کی شریک ہیں ، کراچی کے عوام کے لیے ان پارٹیوں اور ان کی حکومتوں نے عملاً کچھ نہیں کیا اور کراچی کے عوام مسلسل مسائل اور مشکلات کا شکار ہیں ، شہر قائد کی حالت دن بدن بد سے بد تر ہوتی جا رہی ہے ۔