معاشرے میں مغرب کیخلاف مزاحمت نہ ہونے کی وجہ اسلامی تعلیمات سے دوری اور یہودی سازشیں ہیں

614

کراچی (رپورٹ: حماد حسین) امت مسلمہ اپنے علمی، تہذیبی، سیاسی، سماجی، معاشی، معاشرتی نظریہ حیات سے رفتہ رفتہ دور ہورہی ہے جبکہ اسلام دشمن قوتوں اور بالخصوص یہود کی سازشیں بھی عروج پرہیں‘موجودہ دور میں مغربی ٹیکنالوجی بالخصوص سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ سے نوجوانوں پر واضح طور پر مغرب پسندی کے اثرات نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے وہ مکمل طور پر مغرب کی زیادہ مزاحمت نہیں کر سکتے‘تعلیمی میدان میں اگر دیکھا جائے تو ہمارا نصاب تعلیم اور تعلیمی نظام زیادہ تر مغرب اور بالخصوص برطانیہ کا ہی دیا ہوا ہے‘ اپنی مادری زبان اُردو کو چھوڑ کر انگریزی تعلیم کو بہت زیادہ فروغ دینا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے‘ پاکستان کے مقابلے کے امتحانات میں کامیابی کے حصول کے لیے انگریزی تعلیم کو ناگزیر سمجھا جاتا ہے۔ان خیالات کا اظہارجامعہ کراچی کے شعبہ سیاسیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد علی اورسندھ پروفیسرز لیکچررز ایسوسی ایشن کے رہنمامنور عباس اورآل پاکستان پرائیویٹ اسکول اینڈ کالج ایسوسی ایشن کے چیئرمین حیدر علی نے جسارت کے اس سوال کے جواب کیا کہ ’’معاشرے میں مغرب کی مزاحمت کیوں نہیں ہے ۔‘‘ ڈاکٹر محمد علی کا کہنا تھا کہ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ معاشرے میں مغرب کی مزاحمت نہیں ہے اس سے کلی طور پر اتفاق نہیں کیا جا سکتا ‘ماضی میں بہت سے ایسے مزاحمتی گروپ پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے مغرب کی مخالفت کی ‘پاکستان کا قیام خود مغربی مزاحمت کے نتیجے میں ہی وجود میں آیا تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فی الوقت پاکستان کے اندر مغربی مزاحمت اتنی زیادہ نظر نہیں آتی جو کہ ماضی میں نظرآتی تھی‘ اس کی متعدد تاریخی وجوہات ہمارے سامنے موجود ہیں‘قیام پاکستان کے بعد سے ہی پاکستان میں مغربی بالخصوص برطانوی نظام طرز حکومت پارلیمانی و جمہوری نظام کو رائج کیا گیا جس کے اثرات ابھی تک نظر آتے ہیں‘ قانونی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان کے جتنے بھی ایکٹ ہیں وہ زیادہ تر برطانوی نظام کے ہی مرہونِ منت ہیں‘ معاشی نظام میں بھی مغربی اثرات کافی نمایاں نظر آتے ہیں‘مغرب نے اپنے مالیاتی اداروں بالخصوص آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ذریعے سے پاکستان کے معاشی نظام کو اپنے ہاتھوں میں جکڑا ہوا اور پاکستان ابھی تک مکمل طور پر ان کے چنگل سے نہیں نکل پایا‘موجودہ دور میں مغربی ٹیکنالوجی بالخصوص سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ سے نوجوانوں پر واضح طور پر مغرب پسندی کے اثرات نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے وہ مکمل طور پر مغرب کی زیادہ مزاحمت نہیں کر سکتے‘تعلیمی میدان میں اگر دیکھا جائے تو ہمارا نصاب تعلیم اور تعلیمی نظام زیادہ تر مغرب اور بالخصوص برطانیہ کا ہی دیا ہوا ہے‘ اپنی مادری زبان اردو کو چھوڑ کر انگریزی تعلیم کو بہت زیادہ فروغ دینا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے‘ پاکستان کے مقابلے کے امتحانات میں کامیابی کے حصول کے لیے انگریزی تعلیم کو ناگزیر سمجھا جاتا ہے‘ مختصر یہ کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک ہمارا معاشی، سیاسی،’تعلیمی اور قانونی نظام زیادہ تر مغربی نظام کے ہی مرہونِ منت ہے اور ہم اب تک اس کے چنگل سے آزاد نہیں ہو پائے جس کی بنا پر ہمارے معاشرے میں مغرب پسندی کا رجحان بہت زیادہ پایا جاتا ہے اور نئی نسل میں اس کے خلاف مزاحمت کرنے کی اتنی زیادہ سکت موجود نہیں ہے۔ منور عباس کا کہنا تھاکہ معاشرے میں مغرب کی مزاحمت نہ ہونے کی2 اہم وجوہ معلوم ہوتی ہیں‘اول امتِ مسلمہ کااپنے علمی، تہذیبی،سیاسی، سماجی، معاشی ،معاشرتی نظریہ حیات سے رفتہ رفتہ دوری ہونا ہے اور دوم اسلام دشمن قوتوں اور بالخصوص یہود کی سازشیں ہیں۔ اکبر الٰہ آبادی جیسے مغرب کے ناقد و مزاحمت کار مسلسل اپنے اشعار کے ذریعے اس خطرے سے آگاہ کرتے رہے۔ بے انتہا مفید ہیں یہ مغربی علوم۔ تحصیل ان کی بھی سحر و شام کیجیے،یورپ میں پھریے پیرس و لندن کو دیکھیے۔ تحقیق ملک کا شحر و شام کیجیے،ہو جائیے طریقہ مغرب پہ مطمئن۔ خاطر سے محو خطرہ انجام کیجیے ۔اکبر الٰہ آبادی جیسے دیگر شعرا و ادبا اور علما مغرب کے طریقہ کار سے آگاہ کرتے رہے مگر ہم ان کی ان نصیحتوں کو فقط طنز و مزاح کے طور پر لیتے رہے ، من حیث القوم اس پر سنجیدہ نظر نہ آئے بلکہ ان کے رنگ میں رنگتے چلے گئے‘ خود اور اپنی نوجوان نسل کو ان کے چنگل میں پھنستا دیکھنے کے باوجود اس سے چھٹکارے کی کوئی تدبیر نہ کر سکے۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا کہ میخانہ یورپ کے دستور نرالے ہیں۔ لاتے ہیں سرور اول دیتے ہیں شراب آخر، ہمارا پورا معاشرہ مغرب کے سرور میں اس قدر مبتلا ہو چکا ہے کہ وہ اس غیرت وحمیت سے کوسوں دور جا چکا ہے جو کبھی ہمارے آباو اجداد کا خاصا ہوا کرتی تھی‘ اسلام دشمن قوتوں بالخصوص یہود نے بھی ہماری اس کیفیت کا خوب فائدہ اٹھایا اور ہمیں آپس میں دست وگریباں کروا کے اتنا کمزور کر دیا ہے کہ ان کے مقابلے میں کھڑا ہونا بے حد دشوار معلوم ہوتاہے‘ آپس کی رسہ کشی نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا‘مغربی یلغار نے نظریات کو ہی بدل ڈالا ہے۔ حیدر علی کا کہنا تھا کہ معاشرہ اجتماعی رویوں کا عکاس ہوتا ہے جس میں اقدار، رسم و رواج، تاریخ ، طرز زندگی ، تہذیب، تعلیم، زبان اور مذہب شامل ہیں‘ اگر یہ معاملات بیرونی اثر قبول کر لیں تو پھر آہستہ آہستہ زمین پیروں کے نیچے سے نکل جاتی ہے اور معاشرے کا اپنے قدموں پر باقی رہنا بہت مشکل ہو جاتا ہے‘ یہ کام غالب سماج بڑی چالاکی سے اس طرح کرتا ہے کہ خواہشات کو ضروریات بنا دیتا ہے اور مقصد زندگی کو معیار زندگی سے بدل دیتا ہے اور اس کے لیے سب سے زیادہ ابلاغ کا استعمال کیا جاتا ہے ‘مرضی اورمنصوبے کے مطابق دکھایا، سنایا، اور بتایا جاتا ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ معاشرے کے جس طبقے میں جتنی زیادہ مزاحمت کی صلاحیت ہوتی ہے وہ اسی قدر غالب سماج کے زیر تسلط آتا چلا جاتا ہے‘یہی سب کچھ ہمارے ہاں بھی ہوا ہے جس کے سبب مغرب کی مزاحمت دھیرے دھیرے کم سے کم ہوتی گئی۔