مہنگائی پر عمران خان کے یوٹرن

352

وزیر اعظم عمران خان ہر دوسرے تیسرے ہفتے قوم کے سامنے ایک بیان دیتے ہیں پھر اس کی تردید تو نہیں کرتے لیکن ان کے اگلے بیان سے گزشتہ بیان کی واضح نفی ہوتی ہے ۔ ایک مرتبہ پھر پاکستان دُنیا کے مقابلے میں اب بھی سستا ملک ہے کہنے کے چند ہی روز بعد وزیر اعظم نے ہری پور میں تقریب سے خطاب اور پشاور میں پارٹی عہدیداروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عالمی سطح پر اشیاء کی قیمتیں بڑھنے سے مہنگائی میں اضافہ ہوا۔ ہم عوام پر مہنگائی کے اثرات روکنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے پاکستان میں نظام تعلیم پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں دی جانے والی تعلیم کا پاکستان کی ضروریات سے کوئی تعلق نہیں ، وزیر اعظم نے کہا کہ بڑھتی ہوئی آبادی کو روز گار دینا بڑا چیلنج ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان جب سے وزیر اعظم بنے ہیں بلکہ اس سے پہلے سے اسی طرح کی باتیں کرتے آ رہے ہیں ۔ پہلے وہ ایک دن میںآئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضے منہ پر مار دینے والے تھے ۔ پھر آئی ایم ایف جانے کو خود کشی قرار دیتے رہے ۔ پھر اچانک آئی ایم ایف کے پاس چلے گئے ۔ بلکہ اسی کے لوگوں کو لا کر ملک میں اہم پوزیشنوں پر بٹھا دیا، کے پی کے میں بلدیاتی انتخابات میں شکست کا بنیادی سبب مہنگائی کو قرار دیا گیا جبکہ اس سے قبل اور اس کے بعد وزیر اعظم دو تین مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان سستا ملک ہے بلکہ سستا ترین بھی کہہ گئے تھے ۔ اب عالمی سطح پر اشیاء کی قیمتیں بڑھنے سے مہنگائی میں اضافے کی بات کر رہے ہیں یعنی مہنگائی کا اعتراف کر رہے ہیں البتہ ان کی یہ منطق عجیب ہے کہ مہنگائی کے اثرات عوام تک پہنچنے سے روکنے کے اقدامات کر رہے ہیں ۔ مثال کے طور پر مہنگائی روکنے کے لیے پیٹرول مہنگا کرنا کیوں ضروری ہے ۔ وزیر اعظم بتائیں کہ پیٹرول مہنگا ہونے کے اثرات عوام تک پہنچنے سے کس طرح روکے جائیں گے ۔ اسی طرح بجلی کے نرخوں میںمسلسل اضافہ ہو رہا ہے ، گیس مہنگی ہوتی جا رہی ہے ۔ اس کے علاوہ بنیادی ضرورت کی اشیاء ، آٹا ، چینی ، خوردنی تیل ، مٹی کا تیل ، گھی وغیرہ بھی مہنگے ہوتے جا رہے ہیں ۔ ان پر کنٹرول نہ کر سکے تو چینی مافیا ، گندم مافیا کا نام لے کر بیٹھ گئے ۔ وزیر اعظم صاحب کبھی امریکا اور کبھی یورپ کی باتیں کرتے ہیں وہاں کی مثالیں دیتے ہیں لیکن ان میں سے کوئی کام خود نہیں کرتے ۔ پاکستان میں پی ٹی آئی سے زیادہ طاقتور پارٹی شاید صرف فوج ہی ہے جو اقتدار میں ہو تو مکمل اقتدار اس کے پاس ہوتا ہے پی ٹی آئی وہ پارٹی ہے جس کو فوج کے ترجمان اور سربراہ نے کئی بار حمایت اور سر پرستی کا علی الاعلان یقین دلایا ہے ۔ ایسی پارٹی کومافیاز سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ۔ یا تو یہ مافیاز بھی اسی طاقت نے بنا رکھی ہیں جو پی ٹی آئی کی سر پرستی کرتی ہے تو پھر حکومت کیا کر سکتی ہے لیکن حکومت کے کسی اقدام کو مہنگائی کم کرنے والا یا مہنگائی کے اثرات عوام تک پہنچنے سے روکنے والانہیں کہاجا سکتا ۔ بلکہ ہر قدم صرف مہنگائی بڑھانے اور عوام کو دبائو میں ڈالنے والا ہے ۔ وزیر اعظم کس بنیاد پر کہہ ہے ہیں کہ ملک میں دی جانے والی تعلیم کا ملکی ضروریات سے تعلق نہیں ۔ ان کی یہ بات درست ہے کہ ملک میں جس قسم کی رنگ برنگی تعلیم دی جا رہی ہے ۔ چھوٹے بڑے طبقات کے لیے الگ الگ نظام ہیں ۔ عام آدمی وہی تعلیم حاصل نہیں کر سکتا جس کے ذریعے وہ مقابلے کے امتحان تک پہنچے اور شہری انتظامی امور سنبھا لے بلکہ ایک خاص طبقے کے لیے نظام بنا ہوا ہے ۔ وزیر اعظم اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ملک میں نظام تعلیم قومی ضروریات کے مطابق نہیں تو18 ویں ترمیم میں سے تعلیم کو ایک بار پھر وفاق کے سپرد کر دیں تاکہ پورے ملک میں یکساں نظام نافذ ہو ۔ لیکن یہ یکساں نصاب اور نظام کیسا ہو گا ۔ کسی غیر ملکی اور غیر مسلم بورڈ کا نظام پاکستان میں نہیں چلے گا بلکہ یہ مزید خرابیاں پیدا کرے گا ۔ وزیر اعظم اگر18 ویں ترمیم میں تبدیلی کی جرأت نہیں رکھتے تو وفاق کے زیر انتظام تعلیمی ادارے ملک بھر میں قائم کریں اور ملکی ضروریات کے مطابق تعلیمی نظام نافذ کریں ۔ انہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان کو کلرکوں ، چپڑاسیوں ، رائڈرز اور دکانوں اور سپر مارکیٹس کے سیلز مین کی ضرورت نہیں بلکہ پاکستان کو تعلیم گاہوں سے اچھے سچے اور مخلص پاکستانی تیار کرنے ہوں گے ۔ ان کو قرآن ، حدیث اور بنیادی اسلامی اخلاقیات پڑھا کر ڈاکٹر ، انجینئر ، سائنسداں ، تجارت ، آئی ٹی وغیرہ کی ڈگریاں دی جائیں ۔ لوگوں کی نفسیات بدلنے کی ضرورت ہے۔ جتنی مہنگی تعلیم حاصل کرو گے اتنی ہی اچھی نوکری ملے گی ۔ یہ خیال دل سے نکالنے کی ضرورت ہے ۔ تعلیم علم میں اضافے کے لیے ہوتی ہے ۔ اس تعلیم میں سے جو کچھ انسانیت کے نفع کے لیے ہے وہی تعلیم ہے باقی سب فضول ہے ۔پہلے تو اس قسم کے کئی ادارے موجود تھے ۔ وزیر اعظم تعلیم کی اہمیت کے پیش نظر اس پر غور کریں ۔ لیکن حکومت تو تعلیمی ادارے بند کرنے پر تلی رہتی ہے ۔