سینیٹ: عوامی اداروں پرفوج کے ریٹائرڈ افسران کی تقرری کا معاملہ ایک بار پھر زیر بحث

342

سینیٹ میں ریٹائرڈ افسران کے نیشنل ڈیٹا بیس ریگولیشن اتھارٹی (نادرا) کے اعلیٰ عہدوں پر تقرری پر ایک بار پھر بحث چھڑ گئی اپوزیشن کے سینیٹرز نے وفاقی وزیر علی محمد خان سے اداروں میں تقرریوں کی تفصیلات طلب کرلیں۔

سینیٹ اجلاس میں یہ معاملہ اس سے قبل 29 دسمبر کو زیر بحث آیا تھا جب جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے شکایت کی تھی کہ ان کا سوال تھا کہ مسلح افواج کے ریٹائرڈ کتنے ملازمین کو نادرا میں دوبارہ بھرتی کیا گیا ہے،جبکہ انہیں نادرا ملازمین کی تعداد سے آگاہ کیا گیا جو 13 ہزار 997ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے یہ سوال اس لیے کیا تھا کہ پاکستان اعداد و شمار بیورو کے مطابق بیروزگاری کی شرح میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے، نوجوانوں کو روزگار نہیں مل رہا جبکہ دوسری طرف مسلح افواج کے ریٹائرڈ ملازمین کو اچھی مراعتوں کے ساتھ بھرتی کیا جارہا ہے۔

اس موقع پر پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر رضا ربانی کا کہنا تھا کہ ‘اس سوال کا جواب غالباً شیخ رشید احمد کو دینا چاہیے’۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایک عجیب روایت پڑ گئی ہے کہ وزراء ایوان میں اپنے سوالوں کے جواب نہیں دینے آتے، یہ سینیٹ کے وقار کا سوال ہے، ایک یا دو وفاقی وزراء کے علاوہ باقی وزراء سوالوں کے جواب دینے نہیں آتے۔

جس پر چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی وزرا کو ہدایت دی کہ متعلقہ وزراء خود ایوان میں پیش ہوں، خود آکر ایوان میں سوالوں کے جواب دیا کریں، ہاوس بھی نئے نئے چہرے دیکھے گا جو دکھتے ہی نہیں،

مشتاق احمد کے سوال پر وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور محمد علی خان نے پچھلے اجلاس میں دیا گیا جواب دہراتے ہوئے تجویز دی کہ فورسز کے اہلکاروں کی تعیناتی سے متعلق نیا سوال پیش کیا جائے۔

اس موقع پر جماعت اسلامی کے سینیٹر نے اصرار کیا کہ انہوں نے ریٹائرڈ فوجیوں کی تقرری کے حوالے سے سوال کیا تھا لیکن انہیں صرف نمائندکان کے حوالے سے سوال موصول ہوا۔

انہوں نے کہا کہ آپ یہ بات مان کیوں نہیں لیتے کہ مسلح افواج کے درجنوں افسران کا تقرر کیا گیا، آپ ایوان میں ان کا نام نہیں لینا چاہتے؟

ان کا کہنا تھا کہ آپ نے مسلح افواج سے اتنے لوگ نادرا میں بھرتی کیے ہیں، پورا نادرا ان کے قبضے میں ہےاور ایوان کو جواب کیوں نہیں دیا جارہا۔

مشتاق احمد کی بات پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ کچھ بھی ڈھکا چھپا نہیں ہے ‘ہر چیز ریکارڈ پر موجود ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ہم جواب دیں گے مسلح افواج ملک کی اتنی خدمت کر رہے ہیں، کیا آپ سیکیورٹی کے ذمہ دار ہیں نہیں تو ان سے اتنی نفرت کیوں ہے؟

اپوزیشن کی جانب سے رضا ربانی نے محمد علی خان سے سوال کیا کہ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ مختلف اداروں کے اہم عہدوں پر مسلح افواج کے ریٹائرڈ ملازمین تعینات ہیں؟ اے این ایف، اسپارکو، ایرا اور پی آئی اے کے سربراہ کا تعلق مسلح افواج سے نہیں؟

انہوں نے کہا کہ نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم، نیشنل ڈویلمپینٹ کونسل، ایکونومک ایڈوائزری کمیٹی اور چیئرمین واپڈا کا تعلق مسلح افواج سے نہیں؟

رضا ربانی نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ سول ایوی ایشن کے ڈائریکٹر کا تعلق مسلح افواج سے ہے، این ڈی ایم کے سربراہ کا تعلق مسلح افواج سے ہے۔

پیپلز پارٹی کے سربراہ نے واضح کیا کہ ہم ہرگز مسلح افواج کے خلاف نہیں ہیں ہم افواج پاکستان  کے ساتھ کھڑے ہیں،لیکن ہم ملٹرائزیشن آف سول انسٹیٹیوشن کے خلاف ہیں۔

علی محمد خان رضا ربانی کی بات پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ لوگ سوال کر رہے ہیں جن کی پارٹی کے چئیرمین اور پاکستان کے پہلے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تھے، ایوان کو فوجی اور سول توازن نہ سیکھائیں۔

انہوں نے کہا کہ آصف علی زرداری کو چھوڑیں لیکن محترمہ بینظیر بھٹو کے دور میں وزارت داخلہ مسلح افواج کے نصیر الدین بابر چلا رہے تھے۔ دریں اثناء قائد ایوان ڈاکٹر شہزاد وسیم نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مخصوص جواب ملنے کے باوجود معاملہ کو مختلف سمتوں میں لے جایا رہا ہے۔

اپوزیشن پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ‘ہم آپ کی وفاداری کو جانتے ہیں، کبھی آپ کی نفرت کا موسم ہوتا ہے اور کبھی آپ کی محبت کا موسم ہوتا ہے، شاید آج کل آپ کے درمیان کوئی الجھن ہے’۔